کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 386
کردیں گے۔ لیکن ایک نہایت معمولی درخواست ہماری بھی ہے امید ہے کہ آپ بھی ہمیں مایوس نہیں کریں گے اور وہ یہ ہے کہ ذرا آپ بھی اپنی کتب فقہ میں مذکور مستحق امامت کی ترتیب کا طریقہ اورا س جگہ کی تعیین فرمادیں جہاں تفتیش کےبعد ائمہ مساجد کی تعیین عمل میں لائی جاتی ہے۔ ان شاء اللہ ہم بھی آپ کا شکریہ ادا کرنے میں کسی بحالت سے کام نہیں لیں گے۔
موصوف غازی پوری ( دامت برکاتہم) اسی پر بس نہیں کرتےبلکہ اس کےبعدبھی غضب کی ژرف نگاہی اور اعلی فقہی بصیرت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئےا ور اس حدیث کوموقوف قراردیتے ہوئے اہلحدیثوں پر اپنے زعم کےمطابق ایک دوسری کاری ضرب لگانے کی کوشش کی ہےجس سے ان کی توقع کے مطابق جماعت اہل حدیث چاروں شانے چت ہوکر دم توڑدے گی۔ فرماتے ہیں :
”اور عجیب تر بات تویہ ہے کہ انہوں نے اس مسئلہ میں اس حدیث سے استدلال کیسے کیا؟ جب کہ ان کا اصول تویہ ہے کہ :صحابہ کے افعال سےحجت قائم نہیں ہوسکتی۔ “ [1]
اورا س سے عجیب تر بات تو یہ ہے کہ موصوف غازی پوری نے اہل حدیثوں پر اعتراض کیسے کردیا جبکہ ان کی نظر میں افعال صحابہ حجت لازمہ ہیں۔ لہٰذا ان کا اعتراض کرنا بھی درست نہیں ہے بلکہ ان کو بھی اپنے قاعدے ( حجت قول صحابہ ) کے پیش نظر اسی کا پابند ہوناچاہیے ورنہ ان کا حجیت قول صحابہ کا دعوی محض ایک ڈھونگ ہے۔
حقیقت تویہ ہے کہ موصوف غازی پوری کی ان وضاحتوں کے بعدہمیں یقین کامل ہوگیا کہ فقہ کی گردان سے نہ صرف عقل روشن ہوتی ہے بلکہ چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ جب ہی تو موصوف اتنی بہکی باتیں کررہےہیں اور ان کےپیچھے ان کی جماعت تالی بجاکر ان کو شاباشی دے رہی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ موصوف کوحدیث کی ایک روایت میں لفظ ”است“ نظر آگیا جس کا انہوں نے اپنے ذوق جمالیات کی بناء پر ”چوتڑ“سے
[1] مسائل غیر مقلدین (ص:۱۸۰، ۱۸۱)