کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 384
اللہ عنہ) کے ساتھ جو استہزائی رویہ اپنایاہے وہ اپنی جگہ، ا سی کے ساتھ اس حدیث کو بھی مذاق بنانے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر موصوف غازی پوری کوحضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ اورا ن کی روایت کردہ حدیث سےا تنی الرجی کیوں ہے؟ توا س سلسلے میں عرض کردینامناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسی حدیث کوبنیاد بناکر علماء اہل حدیث نے قرآن پڑھے ہوئے ہوشیار بچے کی امامت کوجائز قرار دیاہے۔
چنانچہ فتاویٰ نذیریہ ( ۱/۴۰۷۔ ۴۰۹) میں نابینا اور لڑکے کے پیچھے نماز کی درستگی وعدم درستگی سے متعلق ایک سوال کےجواب میں مولانا محمد یسین عظیم آبادی نے متعلقہ شق کا جواب دیتےہوئے لکھاہے :
”اسی طرح لڑکے کی امامت جب ہوشیار ہوقرآن پڑھا ہو حدیث ست ثابت ہے۔ “
اس کے بعد ابوداؤد کے حوالے سے حضرت عمر وبن سلمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ذکر کیاہے۔ اس جواب پرعلامہ سید نذیر حسین سمیت متعدد علماء کرام کےتائیدی دستخط ثبت ہیں۔ بعدہ ابومحمد عبدالوہاب پنجابی کا تائیدی نوٹ ہے، لکھتے ہیں :
”جواب ہر دومسئلے کا بہت صحیح ہے، ا ورخلاف اس کا قبیح اور غیر قابل اعتبار، خاص کر لڑکے نابالغ کو امام بنانا خواہ فرض ہو یا نفل جیسے تراویح، درست ہے، کیونکہ احادیث صحیحہ میں آگیاہے کہ عمر وبن سلمہ صحابی صغیر چھ سات برس کے تھے اور قرآن شریف خوب جانتےتھے کہ امامت کراتے تھے۔ کذا فی البخاری وغیرہ من کتب الحدیث “۔
بس یہی وجہ ہے کہ موصوف غازی پوری نےصحابی رسول حضرت عمر وبن سلمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی روایت کردہ حدیث کے بارے میں استہزائی موقف اختیار کیاہے۔ فتاویٰ نذیریہ اور نواب صاحب کی ایک کتاب ” عرف الجادی “ سے یہ مسئلہ نقل کرکے اہل حدیثوں پر ڈنڈا برسانے کی جو کوشش کی ہےوہ تو کی ہی ہے، حدیث کے ساتھ مخول کرنے سے باز نہیں آئے ہیں۔ ا ورساتھ ہی ساتھ اپنی عادت جو ان کی فطرت ثانیہ بن چکی