کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 381
حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں انہوں نے جوکچھ فرمایاہے وہ سراسرغلط اور بے بنیاد ہے۔ آپ کی نماز میں بے ستری کپڑے کی قلت اور تنگدستی کی وجہ سے ہوتی تھی نہ کہ لڑکپن کی وجہ سے‘جیساکہ موصوف غازی پوری نے مکمل ڈھٹائی کے ساتھ دعویٰ کیاہےا ور پنی چالبازی کی وجہ سے حدیث کا صرف وہی ٹکڑا نقل کیاہے جس میں سرین کے کھل جانے کی بات مذکور ہے تاکہ احترام صحابہ کا دعوی برقرار رکھتے ہوئے اپنے من موافق بات بناسکیں۔ ورنہ معذوری میں نہ صرف بے ستری کے ساتھ نماز ہوجاتی ہے بلکہ بغیر کپڑے کے بھی نماز ہوجانے کی بات کتب فقہ میں مذکور ہے۔ [1]
اگرلڑکپن کی وجہ سے بے ستری ہوتی تو ایک نہیں دس قمیص انہیں فراہم کردی جاتیں پھر بھی لڑکپن کی وجہ سے انہیں اپنی بے ستری کا پاس ولحاظ نہیں ہوتا اورقبیلہ کی عورت مردوں سے یہ نہ کہتی کہ اپنے امام کی شرمگاہ کوہم سےپوشیدہ رکھو۔ بلکہ یہ کہتی کہ اس غیر ہوشیار بچے کوامامت سے ہٹاؤ جسے بقول غازی پوری نہ اپنے (۔ ۔ ۔ ) کھلنےکاخیال ہوتاہے اور نہ اسے وہ معیوب سمجھتاہے۔
صحابی رسول کی عزت وتوقیر کا دعوی کرنے والے غازی پوری یا ان کے ہم نواؤں کے کسی امام یا بزرگ کا معاملہ ہوتاتوشاید ایسی بات نہیں نکالتے، بلکہ ان کی بزرگی کی دلیل کےطور پر پیش کرتے چنانچہ ان کے ایک بزرگ نے بچپن میں خواب میں دیکھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھاہوں تواس کو ان کی اور ان کےعلم وفضل کی شہرت پرمحمول کرتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام کےخواب سے تشبیہ دی گئی اور لکھنے والے نے بلاجھجھک لکھاکہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کےخواب کی تعبیر میں والد نے”مقام اجتباء “ کی خوشخبری سنائی تھی اسی طرح مولانا موصوف نے بھی اپنے اس خواب کا تذکرہ اپنے جدامجد سے کیاتھا توانہوں نے اس خواب کو سن کرفرمایاتھا“تم کو اللہ تعالیٰ علم عطا فرمائے گا اور بہت بڑے عالم ہوگے اور نہایت شہرت ہوگی۔ “ اس کےبعد سوانح نگار صاحب فرماتے ہیں : کیا
[1] شرح الوقابہ (۱/۱۳۷) میں مذکور ہے ومن عدم ثوبا فصلی قائما جاز“