کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 380
لڑکےا ور ان کے والدین ایسے ہی ہوں، ا ور نہ اپنے زمانے کے لڑکوں پرصحابہ کرام کوقیاس کیاجاسکتاہے۔ مصوف دامت برکاتہم کومعلوم ہوناچاہیے کہ یہ صرف عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کا ہی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس وقت کی عام حالت ہی کچھ ایسی تھی کہ لوگوں کومختلف قسم کی تنگدستیوں کا سامناتھا۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےصحابہ کرام نے ایک کپڑے میں نماز کے جواز کے [1]متعلق سوال کیاتھاتوآپ نے فرمایاتھا”توکیاتم میں سے ہر ایک کو دوکپڑے میسر ہیں “؟ اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے والی صحابیات کوحکم دیاتھاکہ وہ مردوں کےسر اٹھانے سے پہلے اپنا سر نہ اٹھایاکریں، تاکہ مردوں کی شرمگاہیں پر ان کی نگاہیں نہ پڑیں “ [2]
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مزید تفصیل کے ساتھ مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
”میں نے لوگوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ( یعنی نماز میں ) اس حالت میں دیکھاکہ وہ اپنےا زاروں کو اپنی گردنوں میں بچوں کی طرح باندھے رکھتے، ازاروں کی تنگی کی وجہ سے“۔ [3]
قاضی عیاض حدیث کی تشریح کرتےہوئے فرماتے ہیں :
”بے ستری کےخوف اور ازارکی تنگی کی وجہ سے (صحابہ کرام ) ایساکرتےتھے اسی واسطے خواتین کو مردوں سے پہلے سر اٹھانے سے منع کیاگیاتھاکہ ان کی نگاہیں مردوں کی کھل جانے والی شرم گاہوں پر نہ پڑجائیں (یعنی نماز کی حالت میں ) تنگدستی کی وجہ سے، ا بتداء اسلام میں یہی صورت حال تھی“۔ [4]
اللہ تعالیٰ ہی زیادہ ہی بہتر جانتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی توقیرواحترام کا دعوی کرنے والے مولوی ابوبکر غازی پوری (دامت برکاتہم ) کے ان صحابہ کرام کے بارے میں اور ان کی نمازوں کے بارے میں کیا فتوی صادر کریں گے؟ جو بھی فتوی صادر کریں لیکن
[1] صحیح مسلم (۱/۳۲۷حدیث نمبر ۵۱۵)
[2] اس حدیث کو امام ابوداؤدنے اپنی سنن میں روایت کیاہےملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داؤد للالبانی، کتاب الصلاۃ باب رفع النساء اذا کن مع الرجال رؤسھن من السجدۃ (۱/۱۶۰)
[3] صحیح مسلم، الصلاۃ، ابب امرا لنساء المصلیات وراء الرجال (۱/۳۲۶نمبر۴۴۱)
[4] ملاحظہ ہو: حاشیہ مسلم (۱/۳۲۶نواد عبدالباقی)