کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 38
سہروردی یا چشتی وغیرہ، اس کے بعد بھی مزید قاسمی، دیوبندی، رضاخانی، بریلوی یا کچھوچھوی وغیرہ سبھی کچھ ہوسکتاہے۔ ا س سے نہ تو بدعت کی بوآتی ہے اور نہ ہی امت کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتاہے۔ اور اگر اصول وفروع، ا خلاقیات وسلوکیات ہرا عتبار سے امت کو اتباع سلف کی دعوت دی جائے، ا ور ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرکے سلفی نسبت اختیار کرلی جائے توساری قباحتیں یکجا طور پر لوگوں کو نظر آنے لگتی ہیں۔ اس سے بدعت کی بو بھی آنے لگتی ہے اور امت کا شیرازہ بھی منتشر ہونے لگتاہے۔
ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی صاحب نے اس سلسلے میں ”السلفیة مرحلة زمنیة مبارکة لامذھب إسلامی“[1] کے نام سے ایک کتاب ہی لکھ ڈالی ہے۔ موصوف نے اس کتاب میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھاہے کہ”یہ بات نہایت غلط ہے کہ لفظ ”سلف “گھڑ کر “سلفیت “کی اصطلاح اسلامی شریعت کی تاریخ میں رائج کیاجائے، ا ور اسے مابہ الامتیاز عنوان کی حیثیت دے کر اس کے تحت مسلمانوں کی ایک مخصوص جماعت کو شامل ماناجائے۔ “
یہی نہیں بلکہ موصوف نے اس کوواضح طور پر بدعت شمار کیاہے، چنانچہ لکھتے ہیں :
”اگر ہم یہ کہیں تو حقیقت سے تجاوز نہیں کریں گے کہ مذکورہ اصطلاح اپنے ان جدید مفاہیم کے ساتھ جن کی طرف ہم نے اشارہ کیادین میں ایک بدعت ہے، جس سے سلف وخلف میں سے کوئی بھی آشنا نہیں ہے۔ “ [2]
اس جرأت قلمی پر بے ساختہ زبان سے یہی نکلتاہے : سلفیت کی اصطلاح یا سلف کی طرف انتساب کوغلط قرار دے کر اسے بدعت کانام دینا، ا ور دین کا تیا پانچا کرکے اصول وفروع اور سلوک ومعرفت میں مختلف شخصیات کے ناموں سے امت محمدیہ کی لاتعداد فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کوعین اسلام تصور کرنا، ا ور اسلامی شریعت کی تاریخ کا
[1] یعنی ”سلفیت نام ہے ایک بابرکت تاریخی عہد کا نہ کہ کسی اسلامی مذہب کا ”اس کتاب پر صوت الامۃ میں ایک عربی اہل قلم نے نقد وتبڈرہ کیا ہے جو قابل دید ہے، جامعہ سلفیہ نے اسے کتابی شکل میں بھی شائع کیاہے۔
[2] السلفیة مرحلة ومنیة۔ ۔ ۔ ۔ (ص ۱۳)