کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 379
میری عمر سات یا آٹھ سال کی تھی۔ “ یہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں جب کہ انہی کے یہاں دوسری روایت میں مذکور ہے : ”لہٰذا میں ( مختلف ٹکڑوں سے) جوڑی ہوئی ایک ایسی چادر میں لوگوں کی امامت کرتاتھا جس میں سوراخ تھا، سجدے میں جاتے وقت سرین ظاہر ہوجاتاتھا۔ “ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو مزید تفصیل اوربعض الفاظ کےا ختلاف کے ساتھ روایت کیاہے آپ کے یہاں ایک روایت میں مذکور ہے : “جب میں سجدے میں جاتا تو چادر سکڑ جاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ [1] تمام روایات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف غازی پوری دامت برکاتم کا یہ فرمانا کہ ”اتنے چھوٹے تھے کہ ان کو اس کا بھی خیال نہ ہوتا کہ نماز میں (۔ ۔ ۔ ۔ ) کا کھلنا بھی کوئی عیب ہے ۔ “ صحابی رسول کے ساتھ نہ صرف گستاخی ہے بلکہ ان پر ایک تہمت اورا لزام بھی ہے۔ بے ستری کی وجہ سے لڑکپن نہیں بلکہ تنگدستی اور کپڑے کی قلت تھی، اور یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں نے ان کو قمیص خرید کردی تو ان کی خوشی کی انتہانہ رہی، اگر ان کے پاس کپڑوں کی فراوانی ہوتی تو لوگ ان کو ایک قمیص خرید کرنہ دیتے بلکہ عورت کےکہنے پرعمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کو تنبیہ کردیتےکہ یہ تنگ چادر اوڑھ کر امامت نہ کراؤ بلکہ کوئی کشادہ ساتر چادر اوڑھ کرامامت کراؤ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سات آٹھ سال کے لڑکے ایسے نہیں ہوتے کہ انہیں اپنی بے ستری کا خیال نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ سید واڑہ کلی گلیوں میں سات آٹھ سال کے لڑکے ننگ دھڑنگ گھومتے ہوں انہیں اپنی بے ستری کا ہوش نہ ہوتاہو۔ اس میں غازی پوری جیسے عزت مآب لوگوں کی تربیت کا بھی دخل ہوسکتاہے۔ لیکن سید واڑہ کے لڑکے اس طرح کےدینی امور میں دلیل نہیں بن سکتے اور نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہرزمانے اور ہرجگہ کے
[1] صحیح بخاری۔ کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح (۸/۲۲حدیث نمبر۴۳۰۲)