کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 375
النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی التتبع والأخذ منه، وبعضھم :إنه اسم لمؤمن رأی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ) سواء طالت صحبته أم لا۔ إلا أن الجزم بالعدالة مختص لمن اشتھربذلک والباقون کسائر الناس فیھم عدول وغیرعدول“۔
”اگریہ اعتراض کیاجائے کہ تمام صحابہ کرام کی عدالت وثقاہت ان آیات کریمہ اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے جو ان کی منقبت اور فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو ہم اس کےجواب میں یہ ہیں گے کہ بعض اہل علم نے صحابی کی تعریف میں کہاہے کہ لفظ صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتاہے جورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ وتحمل اور آپ کے اقوال وافعال کی تلاش وجستجو کے ساتھ آپ کی طویل رفاقت میں شہرت رکھتے ہیں۔ جب کہ بعض دیگر اہل علم کا کہناہے کہ صحابی کا اطلاق اس مؤمن شخص پر ہوتا ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل ہواہو خواہ اسے طویل رافقت نصیب ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ مگر عدالت وثقاہت کا قطعی حکم انہی لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جوآپ صلی اللہ علیہ السلام کی طویل رفاقت میں شہرت رکھتے ہیں۔ اورباقی صحابہ عام لوگوں کی طرح ہیں ان میں عادل بھی ہیں اور غیرعادل بھی۔ “
حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد نہیں تھے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ کسی بھی مسلمان پر مخفی نہیں ہے۔ آپ معاملہ فہمی اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کوحل کرنےمیں یکتائے روزگار کی حیثیت رکھتےتھے۔ اسی بناء پرعربی میں یہ مثل ایسے موقعہ کےلیے استعمال کی جاتی ہے جب کوئی معاملہ درپیش ہواور اس کو حل کرنے والانظر نہ آئے ”عویصۃ لا أباحسن لھا“ ایسی مشکل آن پڑی ہے جس کوحل کرنے کےلیے کوئی ابوالحسن (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت) نہیں ہے۔ آپ کے بارے میں چلپی حنفی شرح وقایہ کےحاشیہ میں لکھتے ہیں ::
”إن علیالم یکن من أھل الاجتھاد“[1]
حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد نہ تھے۔
[1] (ص ۲۳۲مطبوعہ نول کشور )