کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 374
”فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ“”سوعبرت پکڑنے والے ! عبرت پکڑو“ہوسکتاہےراوی نے حدیث کو اپنی عقل وفہم کےمطابق بالمعنی روایت کیاہو اور اس میں اس سے غلطی سرزد ہوگئی ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےمقصد اورا ن کی مراد تک اس کو رسائی نہ حاصل ہوسکی ہو کیونکہ آپ کی تمام مرادوں تک رسائی کا حاصل کرلینا ایک بہت بڑی اور دشوار بات ہے۔ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوجوامع کلم سے بھی نوازا گیاتھا۔ آپ کی تمام مرادوں کی معرفت علم واجتہاد ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر راوی مجتہد نہیں ہے تو ا س کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام مقاصد اور مرادوں تک رسائی نہیں حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر راوی مجتہدنہیں ہے تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام مقاصد اور مرادوں تک رسائی نہیں حاصل ہوسکتی۔ لہٰذا ایسی صورت میں اس کی بات پر اعتماد کرکے قیاس کوکیونکر ترک کیاجاسکتاہے۔ ا سی ضرورت کے پیش نظر حدیث کو ترک کرکے قیا س کو معمول بہ بنایاجائے گا۔ ا ور یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ نہ کی توہین و تحقیر نہیں ہے۔ حاشاوکلا، بلکہ اس جگہ ایک نکتہ کی وضاحت مقصود ہے۔ “
قمر الاقمارکےحاشیہ میں (نکتہ) کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیاگیاہے :
”یعنی ترک حدیث کےنکتہ کی وضاحت مقصودہے۔ “[1]
صحابہ کرام میں عادل وغیرعادل دونوں طرح کے لوگ تھے
محدثین وفقہاء کے نزدیک ایک متفق عالیہ مسئلہ ہے کہ تمام صحابہ کرام ثقہ اور عادل ہیں۔، ان کی ثقاہت وعدالت کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سند حدیث میں ان کی عدم معرفت صحت حدیث کےلیے مضر نہیں ہے۔ [2]
لیکن تلویح میں مذکور ہے : [3]
”فإن قیل :عدالة جمیع الصحابة ثابتہ بالأیات والأحادیث الواردۃ فی فضائلھم؟
قلنا:ذکر بعضھم :إن الصحابی اسم لمن اشتھر بطول صحبة
[1] اس قسم کی بات اصول فقہ کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے، ملاحظہ ہو : شرح مسلم الثبوت (ص۴۳۲)، نورالانوارمع حاشیہ قمر الاقمار(ص ۱۷۹مطبع مجیدی کانپور)، عمدۃ الحواشی حاشیہ اصول الشاشی (ص۷۵ مطبع سعیدی کانپور )
[2] تدریب الراوی مع شرحہ تقریب النواوی (۲/۲۱۴)
[3] (ص۴۶۵)