کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 372
ہونے پر اگر وہ قیاس کے موافق ہے، تو یقیناً اس پرعمل کرنا لازم ہے، ا ور اگر وہ قیاس کے مخالف ہے تو قیاس پر عمل کرنا بہتر ہوگا۔ ۔ ۔ “
اس کےبعد چند مثالیں پیش کی ہیں جن میں اسی قاعدہ کےبنیاد پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے مروی بعض احادیث رسول کو صحیح ہونے کے باوجود فقہ حنفی میں ترک کردیاگیا اور قیاس کو ان پرترجیح دی گئی ہے۔ [1]
یہ قاعدہ صرف اصول الشاشی کا ہی بیان کردہ نہیں ہے۔ بلکہ حنفی فقہ کی متعدد ومستند ومعتبر کتابوں میں اس کا مشاہدہ کیاجاسکتاہے۔ چنانچہ شرح مسلم الثبوت میں بھی اسی قسم کی بات کہی گئی ہے بلکہ مکمل وضاحت کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھاہے ”فأبوھریرۃ غیر فقیه“ [2]
لفظ ”دون“ جس کا ایک معنی ”کمتر“کے بھی ہوتاہے کہ ذریعہ بات بنانے والے حضرات بتلائیں کیا ان میں اس واضح وصریح لفظ کے اندر بھی کسی قسم کی تاویل کرنے یا بات بنانے کی جرأت ہے۔ اس قاعدے کے لولے پن ا ور واضح طور پر اس سے صحابہ کرام کی تنقیص لازم آنے کی وجہ سے ہی مجدد حنفیت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے المنار وغیرہ سے اس قاعدے کو نقل کرنےکےبعد دوٹوک الفاظ میں کتابوں سےا س کو خارج کردینے کی بات کہی ہے۔ ا ور لکھا ہے کہ کوئی بھی عالم اس قسم کی بات اپنے منہ سے نہیں نکال سکتا۔ ا س طرح کا قاعدہ نہ تو امام ابوحنیفہ، نہ امام ابویوسف اور نہ ہی امام محمد (رحمہم اللہ ) سے مقنول ہے۔ [3]
بعض صحابہ کرام کےیہاں علم ومعرفت اور اطلاع کی کمی تھی
علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئےلکھتے ہیں :
”میں (حضرت) عثمان وعلی ( رضی اللہ عنہما) اور تما م صحابہ کےا قوال وفتاویٰ کے مقابلہ میں اپنےقیاسی مسائل کو چھوڑدینے کےلیے مستعدد ہوں سوائے ابوہریرہ، ا نس اور
[1] ملاحظہ ہو :ا صول الشاشی مع ترجمہ مصباح الحواشی (ص۱۸۳۔ ۱۸۶)
[2] شرح مسلم الثبوت لبحر العلوم (ص۴۳۲)
[3] ملاحظہ ہو : العرف الشذی (ص۴۳۶ا)