کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 370
کہ ان حضرات کا احترام صحابہ اورقول صحابی کی حجیت کا دعوی محض دعوی کرکے صحابہ کرام سے محض زبانی طور پر محبت کا دم بھرنے والے اہل حدیثوں کوان کے افعال اور اقوال کو حجت نہ تسلیم کرنے پر گستاخ صحابہ، اہل تشیع کا ہم نوا بلکہ چھوٹے رافضی کا لقب دینے والے یہ حضرات اپنے ان پٹی اداروں کے بارے میں کیاکہیں گےجنہوں نے بنوامیہ کے بارے میں ایسی ایسی گوہر افشانی کی ہے جس کی جرأت رافضیوں نے بھی نہیں کی ہوگی۔ اورا س کےلیے میں قارئین کرام کی توجہ ندوہ العلماء لکھنو سے شائع ہونے والے تعمیر حیات ۱۰/مارچ ۱۹۹۲ء مطابق ۴/رمضان ۱۴۱۲ھ میں شائع شدہ اس تبصرہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جومولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی کی کتاب ”واقعہ کربلااورا س کا پس منظر “ پر ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی کےقلم سے لکھاگیا ہے۔ اس تبصرہ میں بنوامیہ کےتعلق سے جس زہریلے اور مبنی برظلم وعدوان موقف کا اظہار کیاگیاہے اس سے اہل علم کےحلقے میں زبردست بے چینی پھیل گئی تھی۔ مختلف جہتوں سےمتعدد مطالبات کے باوجود اس زہریلے تبصرہ سے اکابر ندوہ نےا پنی براءت کا اظہار نہیں کیا صرف اجمالی طور پرصحابہ کرام کے بارے میں اہل ندوہ کےموقف کےا عادہ پرا کتفا کرلیاگیا۔ [1] سید واڑہ کے فقیہان باصفا ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہنا پسند کریں گے جنہوں نے واقعہ کربلا کوبنوامیہ اور بنوہاشم کے مابین دیرینہ عداوتوں کا منطقی نتیجہ قرار دیتے ہوئے واقعہ کربلا میں بدر شکست کا انتقام لینے کی تہمت بنوامیہ پر عاید کی ہے، ا ور ان کے ایمان پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے یہاں تک جرأت کرگئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ان کا دل صاف نہیں تھا۔ اورا س سلسلے میں احمدا مین اور طہ حسین جیسے لوگوں کو اپنا مرجع ومصدر بناتے ہیں۔
[1] اس سلسلے کی مکمل روداد ےلیےملاحظہ وہو:الفرقان (خصوصی اشاعت ) مئی، جون ۱۹۹۲ء