کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 37
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام میں بعض دیگر ادیان کی طرح عقل کو بیکار اور مہمل قرار دے دیاگیاہے، ہرگز نہیں، بلکہ اسلام میں عقل کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر آیات کریمہ میں عقل کو استعمال کرنے کا حکم دیاگیا ہے لیکن اس کی ایک حد اور اس کا دائرہ عمل ہے، ا سی حد اور دائرہ میں رہ کر ہی اس کو استعمال کیاجاسکتاہے ۔ دینی امور کی تشریع یا دینی قوانین وضوابط کی تشکیل عقل کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر کوئی مسئلہ قائم نہیں کیاجاسکتا یا اس کی بنیادپر کسی آیت یا صحیح حدیث کی قبولیت یا عدم قبولیت کاحکم نہیں لگایاجاسکتا ہے۔ ”سلفی “نسبت جائز ہے ناجائز؟ اس وضاحت کےبعد کہ سلف کی اتباع ضروری اور لازم ہے ‘مناسب ہوگا کہ اس نقطہ پر بھی روشنی ڈال دی جائے کہ ”سلف “ کی نسبت کرکے اپنے آپ کو انفرادی یا اجتماعی طور پر ”سلفی“ کہنا شرعی حیثیت سے جائز ہے یانہیں ؟ کیونکہ یہ بھی لوگوں کے لیے موضوع بحث بنا ہواہے۔ خاص طور سے اب حضرات کے لیے جوائمہ سلف یاخلف، عرب یاعجم میں سے کسی ایک شخصیت کو اپنا آئیڈیل بناکراسی میں اپنے اپ کو محصور کئےہوئے ہیں۔ ان کو اس نسبت پر بڑا اعتراض ہے، کیونکہ اس سے بدعت کی بوآتی ہے۔ ا ن کے خیال کےمطابق اس سے تحزب، گروہ بندی اور امت اسلامیہ کی صفوں میں انتشار وافتراق کو ہوا ملتی ہے۔ کتنی مضحکہ خیزاورساتھ ہی مبنی برظلم بات ہے کہ پوری امت کے افراد کوعقائد واعمال، ا خلاقیات وسلوکیات کے اعتبارسے مختلف فرقوں، جماعتوں، شخصیتوں اور شیروں میں تقسیم کردیاجائے، تو وہ عین اسلام ہے اس سے امت کی وحدت پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ چنانچہ امت کا ایک فرد بیک وقت فروعی مسائل میں حنفی، شافعی، مالکی یاحنبلی، عقائد میں اشعری، ماتریدی، معتزلی یاکلابی وغیرہ، سلوک وطریقت میں قادری، نقشبندی،