کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 368
متعلقین کوآڑے ہاتھوں لے لیاگیا، ا دارئیے لکھے گئے، مراسلات بھیجے گئے، مضامین قلم بند کیے گئے۔ مجبوراًمولانا عتیق قاسمی صاحب کو ”فقہی سمینار: حقائق اور وضاحتیں “کےعنوان سےایک پمفلٹ شائع کرنا پڑا۔ سننے میں آیا کہ اس کی تردید کےلئے زمزم کا ایک شمارہ ہی مخصوص کردیاگیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اپنے مذہب کے کسی قول سے کسی صحابی کا قول کا ٹکراتا ہوانظر آتا ہے تو اسے اس طرح جھٹک دیتے ہیں جیسے ہاتھ کا غبارجھاڑ دیاجاتاہےاور ایسے ایسے تبصرے فرماتے ہیں جوحب صحابی کے کسی طرح بھی مناسب اورموافق نہیں ہوتے۔ قبل اس کے کہ موصوف غازی پوری کی محبت صحابہ کا نمونہ پیش کیاجائے مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان کے بعض اکابرین اور بعض پٹی داروں کےا قوال کے نمونے بھی پیش کردئیے جائیں جن سے دیوبندی مکتب فکر کے دعوی احترام صحابہ کی حقیقت بھی سامنے آجائے۔ انوار الباری کےمؤلف مولانا احمد رضا بجنوری صاحب اپنی کتاب کےمقدمہ (۱/۲۱، ۲۲) میں ”مکثرین صحابہ پر فقہاء کی تنقید“کےذیلی عنوان کےتحت لکھتے ہیں : ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان جیسے صحابہ چونکہ اصولی قواعد کےخلاف حدیث بیان کرتے تھے، اس لیے وہ فقہاء صحابہ کی تنقیدوں کے نشانہ بنتے تھے۔ “ دوسری بزرگ ترین شخصیت مولانا محمد زکریا صاحب فضائل حج (ص۳۰) میں لکھتے ہیں : ”حضرت عمر رضی اللہ سےنقل کیاگیاہے کہ جو شخص حج کی طاقت رکھتا ہو اور وہ حج نہ کرے، قسم کھاکر کہہ دو کہ وہ نصرانی یا یہودی مرا ہے ؟؟ اس کے بعد مولانا اپنی رائے کا اظہار یوں فرماتے ہیں : ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ممکن ہے کہ ان کی تحقیق ہو، ورنہ علماء کے نزدیک حج نہ کرنے سے کافر نہیں ہوتا، انکار سے کافر ہوتا ہے۔ “ آپ ہی (رضی اللہ عنہ ) سے دوسری روایت نقل کرتے ہیں :