کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 367
میں چھپے ہوئے بغض وحسد اور حقد وعناد کی غمازی کرتاہے۔ جب ہم ان کے دعوی احترام صحابہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان کی کتابوں میں صحابہ کرام کے متعلق ایسی ایسی گستاخانہ باتیں ملتی ہیں جن کا ایک صاحب ایمان شخص تصور ہی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ اپنے منہ یا قلم سے ادا کرے۔ اس کا ایک اچھاخاصا نمونہ جریدہ ترجمان دہلی کےصفحات میں پیش کیاجاچکاہے۔ طوالت اور تکرار کے پیش نظر ان سے گریز کیاجاتاہے۔ لیکن قارئین کرام سے درخواست ہے کہ ان کا ضرور بالضرور مطالعہ کریں تاکہ ان حضرات کےجھوٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت سے آگاہی حاصل ہوجائے۔ ساری باتیں انہی کےا کابرین کی کتابوں کےحوالوں سےبغیر کسی حذف واضافہ کے بیان کی گئی ہیں۔ [1]
احترام صحابہ اورعلماء احناف:
اب آئیے ذرا خود موصوف غازی پوری دامت برکاتہم کے دعوی احترام صحابہ کا ایک سرسری جائزہ لےلیاجائے۔ موصوف اپنی اردو تالیفات میں جگہ جگہ قول صحابی کی حجیت کو نہ تسلیم کرنے پر اہلحدیثوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنے آپ کو احترام صحابہ اور محبت صحابہ کے سب سے بڑے دعویدار کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ محبت صحابہ میں بالکل فناہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ محبت صحابہ میں نہیں بلکہ اپنی مذہبیت (تقلید) میں غرق ہوتے ہیں۔ ا پنے مذہب کی کسی رائے کےخلاف ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال فقہ اکیڈمی کےخلاف ان کی اور ان کے ہم نواؤں کی زبردست محاذآرائی ہے۔ جب کہ اس اکیڈمی کا مکمل انتظام وانصرام دیوبندی مکتب فکر سے منسلک اہل علم کے ہاتھوں میں ہے۔ اور ا س کی مکمل کوشش ہوتی ہے کہ فقہ حنفی سے سرموانحراف نہ ہونے پائے۔ لیکن بارہویں فقہی سمینار میں بعض ایسی قراردیں پاس کرلی گئیں جن میں فقہ حنفی سے انحراف نظر آتاہے۔ پھر کیاتھا ابوبکر غازی پوری صاحب کی پوری ٹیم جوش وحرکت میں آگئی، فقہ اکیڈمی کے سربراہ سمیت اس کے جملہ
[1] ملاحظہ ہو جریدہ ترجمان دہلی بابت ۲۷ اگست ۱۰۳ ستمبر ۱۹۹۹ء (ص۲۰۔ ۲۱)