کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 366
مجتہدین برابر ہیں۔ ابوسعید بروعی کے نزدیک واجب ہے۔ وہ حدیث ”اصحابی کالنجوم۔ ۔ ۔ “[1] سےا ستدلال کرتے ہوئے دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ ان کے اکثر وبیشتر اقوال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہوئےہیں، ا ور اگر انہوں نے اجتہاد سے بھی کام لیا توان کی رائے اورا ن کا اجتہاد زیادہ درست ہوتاہے۔ ا ور کرخی کے نزدیک ایسے امور میں تقلیدصحابی واجب ہے جن کا قیاس واجتہاد کے ذریعہ ادراک نہیں کیاجاسکتاہے کیونکہ ایسے امور میں دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں یا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہویاکذب بیانی کی ہو۔ دوسری صورت کا امکان نہیں ہے لہذا پہلی صورت متعین ( یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا) ایسےامور میں جن کوقیاس کے ذریعہ جاناجاسکتا ہے صحابی رسول کی تقلید نہیں کی جائے گی کیونکہ صحابہ کرام کے یہاں رائے وقیاس سے کام لینا معروف ہے۔
اخیر میں بطورخلاصہ مذکور ہے :
”بعض مقام میں صحابہ کرام کےا قوال کی تقلید کرکے ان کی اقتداء کی جائے گی اور بعض دوسرے مقام میں اجتہاد کرکےا ن کے طریقہ کی اتباع کی جائے گی یعنی جس طرح انہوں نے اجتہاد کیا ہم بھی اجتہاد کریں گے یہ بھی انہی کی اقتداء ہے“۔ [2]
قارئین ملاحظہ فرمائیں : کس وضاحت کے ساتھ صحابی کی تقلید کوغیر ضروری قرار دیتے ہوئے مقام اورضرورت کے مطابق اس کو اخذ کیاجاسکتاہے یا انہی کی طرح اجتہاد سے کام لیاجاسکتاہے۔ ا گر قول صحابی کے حجت ہونے یا اس کی تقلید کےضروری اور غیرضروری ہونے کےتعلق سے حنفی اصول فقہ کی بعض کتابوں سے تفصیل پیش کی گئی جس سے کم از کم یہ واضح ہوگیا کہ قول صحابی کا حجت ہو نا نہ ہونا یا اس کی تقلید کاوجوب وعدم وجوب ائمہ کرام کے مابین ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ دونوں طرف ائمہ گئے ہیں۔ لہذا اس مسئلہ کو بنیاد بناکر اہلحدیثوں خودشمن قرار دینا درحقیقت اہل حدیثوں کےخلاف ان کےسینوں
[1] صحت وعدم صحت کے اعتبار سےا س حدیث کی حیثیت معلوم کرنےکےلیے ملاحظہ ہو: میزان الاعتدال للمذہبی (۱/۴۱۳﴾ وسلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ (۱/۱۴۴ حدیث نمبر ۵۸)
[2] التوضیح والتلویح (ص:۱۴۸۸)