کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 365
ان کی کتابوں میں صرف ان ہی حضرات کےا قوال کو حجیت کا مقام حاصل ہے جن کو طول صحبت کا شرف حاصل ہے۔ ان کی نظر میں فتح مکہ کےموقع پرا سلام لانے والےصحابہ کرام کو تقلیدی طور پرعلم حاصل تھایعنی صحابہ کرام مقلدتھے۔ گویا انہوں نےا پنے ساتھ صحابہ کرام کو بھی مقلد بنالیا۔
سوم :عموم بلوی کوصحابہ کرام کےا قوال پر بلکہ احادیث رسول پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ ا س کے مقابلہ میں نہ تو وہ حجیت کوترجیح دی جائے گی اور نہ صحابی رسول کےقول کو۔ واضح ہونا چاہیے کہ اس قسم کی تفصیل صرف شرح مسلم الثبوت میں ہی نہیں مذکور ہے، بلکہ اصول فقہ کی تقریباً سبھی کتابوں میں اس قسم کی تفصیل آپ کو نظر آئےگی۔ تمام کتابوں کی تفصیل یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہےا س لیے صرف ایک کتاب جس کوصرف سید واڑہ کی شورائی مجلس کےممبران بلند اطوار ہی سمجھ سکتے ہیں ”التوضیح والتلویح“کا مسئلہ کاخلاصہ پیش کرنے پر اکتفاء کیا جاتاہے :
مذکورہ کتاب میں تقلیدصحابی کے تعلق سے تین حالتیں ذکر کی گئی ہیں۔ ا یک حالت میں وجوبی طورپر تقلید صحابی کو ضروری قراردیاگیا ہے۔ یہ اس صورت میں جب کہ قول صحابی کوصحابہ کرام کے مابین شہرت حاصل ہوئی اور تمام صحابہ کرام نےا س کو تسلیم کرتے ہوئے سکوت اختیار کیاہو۔
دوسری حالت میں اجمالی طور پر تقلید صحابی واجب نہیں ہے۔ یہ ا س صورت میں جب کہ صحابہ کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتاہو۔
تیسری حالت وہ ہے جس میں صحابہ کرام کے اختلاف واتفاق کا علم نہ ہو۔ ایسی صورت میں علماء کرام کے مابین اختلاف ہے۔
پھرا ختلاف کی تفصیل بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں :
”امام شافعی کے نزدیک تقلید صحابی واجب نہیں ہے‘کیونکہ جب صحابی نے حدیث کو مرفوعاً روایت نہیں کیاہے تواسے سماع پر نہیں محمول کیاجائے گا، ا ور اجتہاد میں وہ اور تمام