کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 364
(”اقوال صحابہ کی حجیت وعدم حجیت کے بارے میں ) یہ نزاع صرف ان اقوال صحابہ کے بارے میں ہونا چاہیے جنہوں نے اپنی زندگیاں صحبت رسول میں گزاردیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاکیزہ اخلاق کواپنایا۔ مثال کے طور پر خلفائے اربعہ، ا زواج مطہرات، عبادلہ اربعہ (عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمرو) انس، حذیفہ ( رضوان اللہ علیہم ) اور جوان کے طبقہ میں ہیں‘نہ وہ صحابہ جو فتح مکہ کےموقع پرا یمان لائےتھے اس لیے کہ ان سب سے بیشتر لوگوں کو احکام شریعت کی معرفت بطور تقلید حاصل ہوئی تھی، و اللہ اعلم، نیز یہ نزاع عموم بلوی والے امور کےعلاوہ میں ہونا چاہیے، اگر عموم بلوی والے امور میں کسی صحابی رسول کا قول عمومی بلوی کےخلاف ہوگا تو اسے متفقہ طور پرقبول نہیں کیاجائے گا۔ ا س لیے ایسی صورت میں حدیث رسول کونہیں قبول کیاجاتاتو صحابی رسول کے قول کونہیں قبول کیاجاتا توصحابی رسول کےقول کو کیونکر قبول کیاجائے گا۔ [1]
قارئین کرام کو اسی ایک ا قتباس کے ذریعہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان لوگوں کے دانت دکھانے کےا ور، ا ور کھانے کے اور ہیں، یہ حضرات دعوی کرتے ہیں صحابہ رسول کےقول کی مطلق تقلید کا، اور جھنڈا بلند کرتے ہیں احترام صحابہ اور تقدس صحابہ کا، لیکن ان کی کتابوں میں کچھ اور ہی ملے گا آپ کو۔
اول : یہی کہ امام شافعی رحمہ اللہ سمیت خود علماء احناف میں سے بہت سے حضرات قول صحابہ کو حجت نہیں مانتے، لہٰذاسب کوچھوڑ کرصرف اہل حدیثوں کوہی مطعون کرنا اور ان کو چھوٹا رافضی قراردینا اہل حدیثوں سے تعلق خاطر کی دلیل ہے، جس پر اہل حدیثوں کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ سب کو نظرانداز کرکے صرف انہی کو درخوراعتناء سمجھاجاتاہے۔ یہ ان حضرات کی انتہاء درجہ کی ذرہ نوازی اور کرم فرمائی ہے۔
دوم: یہ کہ یہ حضرات مطلق کےا قوال کی حجیت کا اعلان کرکے بالکل جھوٹے طریقے سے احترام صحابہ کا علم بلند کئے ہوئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ
[1] شرح مسلم الثبوت (ص:۳۷۱)