کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 363
”ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ کا ارشاد ہے کہ ”جوحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مقنول ہے وہ سر آنکھوں پرا ورجوصحابہ کرام سے منقول ہے تو اسے میں ترک نہیں کروں گا“۔ یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جانب سے ایک واضح صراحت ہے کہ آپ تقلید صحابہ کے قائل تھے لیکن بعض مسائل میں آپ کا عمل صحابی رسول کےقول کےبرخلاف تھا“
توذرا موصوف غازی پوری ( دامت مرکاتہم ) یہ بتلائیں کہ امام صاحب اور صاحبین نے جن مسائل میں عمل صحابہ کی مخالفت کی ہے ان میں وہ صحابہ کرام کی شیدائی تھے یا گستاخ؟ ذرا انصاف سے کام لیجیے گا، ویسے آپ جیسے لوگوں سے انصاف کی توقع فضول ہے۔
”شرح مسلم الثبوت “میں ایک دوسری جگہ اسی مسئلہ پر بحث کرتےہوئے ان لوگوں کا تذکرہ کیاگیا ہے جو صحابی رسول کے قول کوواجب التقلید نہیں مانتے، ان میں امام شافعی کا (قول جدیدمیں ) اورا بوالحسن کا بھی ذکر کیاگیاہے [1] کہ ان حضرات نے صحابہ رسول کے واجب التقلید ہونے کاانکار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے قول پرا ستدلال کرتے ہوئے کہاہے :
”قولہ وقول مجتھد آخر سواء “
یعنی صحابہ رسول کا قول ا ور کسی دوسرے مجتہد کا قول دونوں یکساں ہیں۔ “
ایک دوسرے قول کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتےہیں :
”ایک قول یہ بھی ہے کہ صرف پہلے دونوں امیرا لمومنین حضرت ابوبکر وعمررضی اللہ عنہا کے اقوال ہی سنت سے ملحق قرار دئیے جائیں گے نہ کہ دیگر صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم ) کے اقوال ‘یعنی صرف پہلے دونوں امیر المومنین کے اقوال واجب التقلید ہیں۔ “
پھروضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
[1] میرے خیال؛ میں ابوالحسن کراچی کے بارےمیں یہ بتلانے کی ضرورت نہیں ہے وہ کون تھے؟