کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 361
صفحات شاہد ہیں کہ جب بھی کسی بڑے عالم نےا صلاح وتعمیر کا بیڑہ اٹھایا اس کے گرد جھوٹے الزامات اور گھناؤنی تہمتوں کا ایسا زبردست جالہ تان دیاگیاکہ عوام کی نظر وں میں وہ مبغوض ومتہم ہوگیا، ا ور اس طرح لوگ اس کی باتوں کوسننے کےلیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی واضح مثال شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ہیں۔ انہوں نے جس وقت اپنی دعوتی واصلاحی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیاان کےخلاف غلط اور بےبنیاد گھاؤ نےا لزامات اور تہمتوں کا طومارباندھ گیا۔ جب کہ حقیقت میں ان الزامات اور تہمتوں سے آپ کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ آج تک باوجود یہ کہ آپ کی دعوت واضح ہوچکی ہے لوگ انہی الزامات کو دہراتے چلے آرہے ہیں۔ کچھ یہی سلوک علماء اہل حدیث کے ساتھ بھی روا رکھاگیاہے۔ حقائق کےو اضح ہوجانےکےبعد بھی لوگ ایسے گھسے پٹے الزامات کو دہراتے چلے آرہے ہیں جوکسی زمانے میں ان پر غلط طریقے سے عاید کیے گئے تھے۔ حالانکہ ان کے جوابات نہ صرف اہل حدیث قلم سے دئیے گئے ‘بلکہ غیرجانبدار اہل علم بھی ان کی تردید وتعاقب میں پیش پیش رہے ہیں، لیکن ان کا ادنیٰ نوٹس لیے بغیر بعینہ انہی الزامات کو دہرا کر دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہے۔ ا ور بغیر کسی توقف کے اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حالانکہ جماعت اہل حدیث کا کبھی بھی یہ شیوہ نہیں رہاہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی ایک شخص میں محصور کرکے وجوبی طور پراس کے جملہ آراء واجتہادات کی پابندی کوضروری سمجھتی ہو۔ اس کی نظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی ایسی ہستی نہیں ہے جس کی علی الاطلاق اتباع کی جاسکے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو مخالفین بھی اچھی طرح جانتےا ور سمجھتے ہیں لیکن مقصد برآری کےلیے بڑے سے بڑے حقائق کو بھی لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جھٹلاسکتے ہیں۔ ا گر ا س سلسلے میں افتراء پردازی، بہتان تراشی اور تہمت بازی کی ضرورت پڑے تو اسے بآسانی انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ زیر بحث موضوع میں اس کی مثالیں دیکھنے میں آئیں۔
مذکورہ شخصیات جماعت اہل حدیث کے اکابرین میں ضرور شمار کی جاتی ہیں