کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 360
کے غیر عادلانہ حکم کو اپنے سخت ترین دشمن کےخلاف بھی قبول کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ مذکورہ اقتباس کا آخری جملہ قابل دیدہے، دلائل سے عاری مختلف فرد جرم زبردستی عایدکرنے کےبعدبھی صاحب اقتباس کو جب یہ احساس ہوا کہ ہماری ان تمام سطحی اور غیرمعیاری باتوں سے میاں صاحب کا شیعی ہونا ثابت نہیں ہوتوتو لٹھ بازو ں کی طرح چلتے چلاتے حددرجہ تحکمانہ اندازاختیار کرتےہوئے فرماتے ہیں : ”لہذامولوی نذیر حسین کے شیعہ ہونے میں شبہ نہیں ہے۔ “ ہم نہایت ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہیں گے ہوسکتاہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے جوخصوصی اختیارا ت ملے ہوئے ہیں اور جن کا بعض موقع اور مناسبت سے مظاہرہ بھی کرتے ہیں ان کو بروئے کار لاکر میاں صاحب کے دل میں جھانک کرا ن کی شیعیت کا ان لوگوں نے پتہ لگالیاہو، ورنہ ہم میاں صاحب کی تحریرات کو دیکھ کر یقین کی حد تک یہی سمجھتےہیں کہ موصوف کے یہاں شعیت کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں پایاجاتا تھا۔ ان واضح تحریرات کے ہوتے ہوئے آپ کو وہی شخص شیعی قرار دے سکتاہے جس دل میں آپ کےخلاف گرد کی موٹی تہ جمی ہوئی ہے اور جس کی شریعت میں حقائق سے منہ موڑ کر صرف افترا پردازی اور بہتان تراشی کے ذریعہ کسی کومتہم کرنا نہ صرف جائز بلکہ باعث اجروثواب سمجھاجاتاہے۔ واضح ہوناچاہیے کہ آپ کو صرف رفض وتشیع سے ہی نہیں متہم کیاگیابلکہ اس کے علاوہ دیگر بازاری گھٹیا قسم کےا لزامات سے بھی آپ کو نوازنے میں کرم فرما حضرات نے کافی فراخ دلی کا ثبوت دیاہے، جن کا بعض غیر جانبداراہل علم کی تحریرات کی روشنی میں ایک مستقل مضمون میں جائز ہ لیاجاچکاہے۔ جماعت اہل حدیث کے انہی تین اکابرین کو رفض وتشیع سے متہم کرنے کا مقصد عوام کی نظر میں پوری جماعت کو بدنام کرناہے، کیونکہ ان لوگوں کی نظر میں برصغیر میں غیر مقلدیت ( اہل حدیث )کےیہی لوگ بانی مبانی ہیں۔ ۔ چنانچہ ان حضرات کو رفض وتشیع سے متہم کرلےبآسانی پوری جامعت کو عوام کی نظر میں مطعون کیاجاسکتاہے۔ ا ور تاریخ کے