کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 36
ایمان ہی مقبول ہوا۔ ا رشاد ربانی ہے : ﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ﴾ یونس:۹۰۔ ۹۱) ترجمہ: ’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتاردیا، پھر فرعون اور اس کا لشکر شرارت اور زیادتی کے لیے ان کےپیچھے لگا، جب ڈوبنے لگا تو کہہ اٹھا ( اب) میں ایمان لایا کہ نہیں ہے کوئی معبود (برحق) مگروہی ذات جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ ا ور میں ( اس کا ) تابعدار ہوں، کیا اب (ایمان لایا) اور پہلے نافرمانی کرات رہا اور تو فسادیوں میں کاایک فسادی تھا۔ “ ڈاکٹر بوطی صاحب کےکلام سے کوئی بھی شخص واضح طور پر یہی نتیجہ اخز کرسکتاہے کہ موصوف خلف کے طریقہ کارا ور منہج کو جس میں عقل کوکتاب وسنت پر فوقیت حاصل ہے، سلف کا منہج اور طریقہ کار بناکر پیش کرنا اور مسلط کرنا چاہتے ہیں جبکہ خلف کا منہج سلف کے منہج کے بالکل منافی ومخالف ہے ۔ منہج سلف میں عقل کو کبھی بھی کتاب وسنت کے نصوص پر فوقیت نہیں حاصل ہوسکتی، کیونکہ دین کے معاملات میں عقل کاکوئی دخل نہیں ہے۔ جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واضح طور پرفرمادیاہے : "لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ."[1] ترجمہ : ’’اگر دین عقل ورأی کے ذریعہ ثابت ہوتا توموزے کا نچلا حصہ بہ نسبت اوپری حصہ کے مسح کا زیادہ مستحق ہوتا حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوموزے کےا وپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ‘‘
[1] ابوداؤد، کتاب الطہارۃ (۱/۱۱۴۔ ۱۱۵، حدیث نمبر ۱۶۲)