کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 359
زبردست وکالت بھی کی ہے۔ آپ روافض اورا ہل تشیع کے دین کوبرزخی دین کا نام دیتےتھے۔ یہ ساری تفصیلات سوانح قاسمی میں ان کے شاگرد رشید نے قلم بند کی ہیں۔ [1]
چونکہ معاملہ اپنے سیدنا الاما م الکبیر کا تھا، لہٰذا ن تمام امور سے ان کی سنیت میں کوئی فرق پڑنے والانہیں ہے۔ و ہ پکے سنی ہی رہیں گے۔ وہ توعلماء اہل حدیث ہی ہیں کہ ان کی جانب جھوٹے ہی کسی شیعی مجتہد سے خط وکتابت کی بات منسوب کردی گئی تو وہ شیعی رافضی قرار پائے گئے، یا محض اس بناء پر ان کوشیعی زیدی کا لقب عطا کردیا گیاکہ انہوں نے افعال صحابہ کی حجیت کا انکار کیا۔ جب کہ بعض ائمہ کرام جن کی تقلید کو واجب قراردیاجاتاہے انہوں نے بھی افعال صحابہ کی حجیت کو تسلیم نہیں کیاہے۔ کوئی مثال دئیے بغیر یا کوئی نمونہ پیش کئے بغیر علامہ سید نذیر حسین رحمہ اللہ کو کس جر أت اور تھوک بھاؤ سے متہم کرنے کی جسارت کی گئی ہے اور کہاگیاہے کہ تمام عبادات اور دینی مسائل کو چھوڑ کر محض فقہاء اورصحابہ کے مطاعن کو عبادت سمجھ کر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کو وہ عبادت عظمیٰ تصور کرتےتھے۔ حقیقت میں اس طرح نفرت وعداوت اور بغض وحسدسے لبریز دلوں کے پھپھولے پھوڑنے کی کوشش کی گئی ہے، ا گر بیان حق اور تبلیغ دین سے کوئی یہ تصور کرے کہ یہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہے تو اسے اپنے ایمان کی خبر لینی چاہیے۔
کچھ اسی طرح کا الزام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر بھی عاید کیاگیاتھا جب آپ نے دین اسلام کی دعوت دینا شروع کیاتھا۔ ثبوت فراہم کیے بغیر یہ الزام عاید کرنا کہ میاں صاحب رحمہ اللہ موضوعات ( من گھڑت حدیث ) کوحدیث قرار دے کر یا اپنی جہالت ونافہمی کی بناء پر امام ابوحنیفہ کی جانب سے مخالفت کی نسبت کرتے ہیں کسی بھی طرح قرین عقل ومنطق نہیں ہے۔ دلائل سے عاری اس طرح کے جابرانہ احکام کو وہی شخص تسلیم کرسکتاہے جس کے سینہ میں بغض وحسد کی آگ شعلہ زن ہوگی۔ کوئی بھی انصاف پسندا س نوعیت
[1] تفصیلات کےلیے ملاحظہ ہو : راقم کا مضمون “ابوبکر غازی پوری کی وبوبندیت اور اس کے شاخسانے ”جریدہ ترجمان دہلی شمارہ ۲۶، ۱۹، ۱۲/فروری ۱۹۹۹ء قسط (ص:۱۸، ۱۶)