کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 358
ہیں توا س میں میاں نذیرحسین رحمہ اللہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ علماء احناف میں ایک نہیں سیکڑوں محققین مل سکتے ہیں جنہوں امام صاحب کی رائے اور ان کے اجتہاد سےا ختلاف کیاہے، بلکہ خود امام صاحب کے شاگردان خاص نے ایک قول کےمطابق ثلث دوسرے قول کےمطابق دوثلث اقوال میں اختلاف کیاہے، اگر ان کااختلاف کسی قسم کی کدورت کا سبب نہیں بن سکتاتوصرف میاں صاحب رحمہ اللہ یا دیگر علماء اہل حدیث کا اختلاف کیوں کر باعث کدورت ہوسکتاہے؟
اور برض محال اگرمیاں سید نذیر حسین رحمہ اللہ کوامام صاحب یادیگرفقہاء امت سے نفرت تھی تو کیااس کی وجہ سےآپ کوشیعی اور رافضی کہاجاسکتاہے؟بناء باطل علی باطل کی ا س سے بڑھ کر اورکوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ مطاعن ابی حنیفہ کےسلسلےمیں شیعی مجتہد سے خط وکتابت کی جو بات کہی ہے وہ ایک مخالف معاصر شخص کلی روایت ہے جومختلف شکوک وشبہات کے دائرے میں آسکتی ہے۔ آئیے ہم آپ کودیوبندی ”سیدنا“ کے اہل تشیع کے ساتھ قلبی روابط اور ایک بڑے شیعی مجتہد کے درپران کی حاضری کا واقعہ خود انہی کے ایک خاص شاگرد کی زبانی سناتے ہیں، سوانح قاسمی کےمولف لکھتے ہیں:
”شیعوں میں مشہور مجتہد مولوی حامد حسین لکھنوی تھے، اپنی شان اور اپنے مقام کا خیال کئے بغیر سیدنا الامام الکبیر ان کے پاس پہنچ گئے جس حال میں پہنچےتھے اس کا ذکر اپنے خط موسومہ مولوی حکیم ضیاء الدین رام پوری میں بایں الفاظ فرمایاہے:
”بے عمامہ ورومال چنانکہ عادت من ست برمکانےکہ مولوی حامد حسین صاحب لکھنوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فروکش بودندرفتم “ [1]
یہی نہیں بلکہ انہوں نے ماتم کی مجلسوں میں شریک ہوکر ان میں تقسیم کیاجانے والاحلوہ بھی قبول کیاہے، جس سے ان کے سوانح نگار نے شیعوں کے ساتھ ان کے قلبی تعلق پرا ستدلال کیاہے۔ ان کے دل میں اہل تشیع کے ساتھ جو نرم گوشہ پایاجاتاتھا ا س کی
[1] سوانح قاسمی (۲/۶۵)