کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 356
کیونکہ آپ ہی کی جماعت سے وابستہ بعض بزرگوں نےان کےحق میں ایک حدیث وضع کرکے ان کے فتنہ کو ابلیس کے فتنہ سے زیادہ مضرت رساں قراردیاہے۔ یوں ائمہ اربعہ کی حقانیت کا دعوی کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کی تقلید کو واجب وضروری گردانا جاتاہے، لیکن موقعہ آتاہے تو وہی امام شافعی اور دیگر ائمہ کرام دشمن بھی ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا کوئی بعید بات نہیں ہے کہ امام شافعی کو بھی شیعی قرا ردے دیاجائے۔ لیکن اپنے علماء مذہب کوشیعہ قرار دے کر احترام صحابہ کے اپنے دعوے کی حقانیت کو ثابت کرنے کی جرأت اگر آپ کے اندر ہے تو ذرااسی فراخ دلی کے ساتھ ان علماء کو بھی شیعہ کہہ دیجیے جو افعال صحابہ کو حجت نہیں تسلیم کرتے۔
میاں صاحب رحمہ اللہ کو شیعی قرار دینے کےلیے دوسری دلیل جو پیش کی گئی ہے وہ اتنی مضحکہ خیز ہے کہ انسان اس پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا، ا یسا ہی کوئی شخص اس قسم کےدلائل سے اپنے مدعا کوثابت کرنے کی جرأت کرسکتاہے جومعقولیت کی صلاحیت کھوبیٹھا ہو۔ کیاامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا دیگر فقہاء کرام جن کی تنقیص وعیب جوئی کا الزام میاں صاحب پر عاید کیاجاتاہے صحابہ میں شمارکئے جانے لگےہیں کہ ان کی تنقیص کوبھی رفض وتشیع کہاجانے لگا؟ ابھی تو ان کے تابعی یاتبع تابعی ہونے میں اختلاف تھا۔
حالانکہ یہ دعوی بھی اپنی جگہ بالکل غیر معقول اور غیر واقعی ہے کہ آپ کو امام صاحب یادیگر فقہاء کرام رحمم اللہ سے کسی قسم کی کدورت تھی۔ فتاویٰ کی شکل میں ان کی تحریریں موجود ہیں ان کی کدورت کا ایک نمونہ بھی نہیں پیش کی جاسکتاہے بلکہ اس کے برخلاف موصوف نے اپنے فتاویٰ میں ائمہ احناف سمیت تمام فقہاء امت کا نہایت ادب واحترام کے ساتھ نام لیاہے۔ نہ صرف ادب واحترام کے ساتھ نام ہی لیاہے بلکہ بعض فتاوی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےقول پرا عتماد بھی کیاہے۔ [1]
[1] اس کی بعض مثالیں بعنوان ”محدث عبدالحق بنارسی ومیاں نذیر حسین محدث دہلوی دوانصاف پسند اہل علم کی نظر میں “پیش کی جاچکی ہیں۔ ملاحظہ ہو : محدث بنارس اگست ۹۸ء (ص:۲۲)
مناسبت کے پیش نظر ہم یہاں مولوی ابوبکر غازی پوری کی ایک دھاندلی بازی اور اس کی آڑ میں صاحب تحفہ پر=
= ان کی تبرابازی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں، فتاویٰ نذیریہ (۲/۴۹۰) میں ایک استفتاء موجود ہے جس میں ایک ایسی عورت کی جانب سے سوال کیاگیاہے جس کا شوہر پچاس سالہ بہن سمیت اپنی چند بیٹیوں کو جو بلوغت کی حد کو پارکرچکی ہیں بلانکاح بیٹھا رکھاہے، ان کی شادی نہیں کرتا، عورت کا کہنا ہے کہ کیامیں شوہر کی اجازت کے بغیرا پنی لڑکیوں کی شادی کرسکتی ہوں، ا س کا جواب ابراہیم فقیر محمد حسین نامی کسی اہل قلم نے تحریر کیا ہے، جس میں درمختارا وت عالمگیری وغیرہ کےحوالےسےجوازا فتویٰ دیاہے اس صورت میں والدہ اپنی بچیوں کی شادی ان کی اجازت سے کہیں کرسکتی ہے، باپ کےمنع کرنے سے اس کی ولایت ساقط اور پامال ہوگئی فتوی کے اخیر میں صرف مجیب کا نام درج ہے نہ میاں صاحب کےتصدیقی کلمات ہیں اور نہ آپ کے دستخط کی نقل موجودہے۔ جیساکہ عموماً شاگردوں کےلکھے ہوئے جوابات کے اخیر میں ”ألجواب صحیح “ یا اسی معنی کی عبارت لکھی ہوتی ہے۔ ا ور آپ کے دستخط کی نقل ثبت ہوتی ہے۔ بلکہ اس کےبرخلاف فتوی کے معاً بعد مولانا مبارکپوری صاحب تحفہ رحمہ کا تردیدی نوٹ ہے، جوہمارے مولاناغازی پوری کے لیے سوہان روح ثابت ہوا، اس نوٹ پر ان کی مسلکی حمیت اور حنفی غیرت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا، دل کے پھپھولے پھوڑنے کی ضرورت محسوس کرنےلگے اور اس کےلیے موقع کی تلاش میں لگ گئے۔ چونکہ صاحب تحفہ کا تعاقب نہایت مدلل اور واضح تھا۔ ہاتھ کا کرتب دکھائے بغیر اگر بدزبانی کرتے تو شاید ان کے ہم نوا حضرات بھی بدظن ہوجاتے، لہٰذا بزرگوں سے سیکھی ہوئی امانتداری (؟) کے گرکوبروئے کار لاتے ہوئے کئی ایک ہاتھ کی صفائی دکھلائی۔
اولاً: ابراہیم فقیرمحمدحسین کا تحریرکردہ فتوی میاں صاحب کا فتوی بناکر پیشکیاجب کہ وہ فتوی نہ تو میاں صاحب کا تحریر کردہ ہے اور نہ اس پرآپ کی تصدیقی مہرثبت ہے بلکہ صاحب تحفہ کے تعاقب پرمیاں صاحب کی تصدیقی مہر ثبت ہے، معلوم ہوناچاہیے کہ فتاویٰ نذیریہ میں مذکورہ فتاوی کی شکلیں مختلف ہیں، کچھ فتاویٰ ایسےہیں جوحقیقت میں میاں صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ ا ور کچھ ایسے ہیں جنہیں شاگردوں نے تحریرکیاہےا ن پر میاں صاحب کےتائیدی نوٹ اور دستخط ہیں۔ اس طرح وہ فتاویٰ بھی آپ ہی کےمانےجائیں گے، ا ور کچھ فتاوی مخالفین کےہیں جن کو ذکر کرکے ان کا تعاقب کیا گیا ہے۔ اس کی واضح مثال میاں صاحب کا وہ فتویٰ ہے جسے مولوی محمد فصیح غازی پوری کے فتوی کوذکر کرکےاس کےتعاقب میں تحریر کیاگیاہے۔ کیاابوبکر غازی پوری صاحب کی شریعت میں محمد فصیح غازی پوری کا ذکرکردہ فتویٰ میاں صاحب کا فتوی ماناجائے گا ؟
ثانیاً:غازیپوری نےصاحب تحفہ کامکمل کلام نہ نقل کرکے صرف نصف کلام ہی نقل کرنے پرا کتفاکیاہے، نصف باقی میں آپ نے بطور دلیل بلوغ المرام کےحوالے سے حدیث رسول: ”لاتزوج المرأۃ المرأۃ “” کوئی عورت کسی عورت کی شادی نہیں کرسکتی “پیش کیاہے، ا ور سبل السلام سےحدیث کی شرح اورا س کےمستفاد کونقل کیاہے، ا ن ساری چیزوں کوحذف کرنے کےساتھ جو آدھا کلام نقل کیاہے اس میں بھی ہاتھ کی صفائی دکھلائی ہے۔ اس طرح ماحول کو سازگار بنار صاحب تحفہ پر شاگرد اور استاذ کا حوالہ کے کرخوب خوب برسے ہیں اور اس کےلیے عنوان قائم کیاہے“ذرا غیرمقلدین کی شریعت کا یہ مسئلہ بھی ملاحظہ فرمائیں “ اس پرہم بھی بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن کسی وجہ سے بروقت اسی پر اکتفاکیاگیاہے۔