کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 355
کیا اس مفروضہ پر کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے کہ آپ نے ترک تقلید کےبعدہی افعال صحابہ کی حجیت کا انکار کیا۔ نیز آپ کو فقہاء کرام بالخصوص حضرت امام اعظم اورا ن کی فقہ سے کد ہوگئی۔ مطاعن ابوحنیفہ کی جستجو آپ کوشیعہ مجتہد تک لے گئی، چنانچہ لکھتے ہیں : ”مولوی نذیرحسین صاحب نےسید محمدمجتہد شیعہ سے بذریعہ خطوط مطاعن ابوحنیفہ کےطلب کیے، اور ہمت آپ کی بالکل طرف مطاعن ائمہ فقہاء اورتجہیلات صحابہ کے مصروف ہے، اورمدارقول ابوحنیفہ کا جوقرآن یا حدیث صحیح ہے ا س سےبالکل چشم پوشی ہے، سب عبادات اور دینیات کو چھوڑ کر فقط مطاعن صحابہ اورفقہاء کوعبادت اور جہاد قرار دے کرمسلمانوں کو آپس میں لڑانے کوعبادت عظمیٰ قرار دیا، اور اپنی نافہمی سےا حادیث کو یا اپنی جہالت سے موضوعات کوحدیث قرار دے کر مخالفت ابوحنیفہ کی طرف نسبت کی ہے، لہٰذا مولوی سید نذیر حسین کے شیعہ ہونے میں شبہ نہیں ہے۔ “[1] اس کےبعد مضمون نگار نے بعض شاگردوں کے نام لیے بغیر مبنی برتشدداقوال کی ذمہ داری بھی میاں صاحب ہی پر عاید کی ہے۔ جرأت وبے باکی ملاحظہ ہو، افعال صحابہ کو حجت شرعیہ نہ ماننے کی صورت میں موصوف میاں صاحب کو رفض وتشیع سے مہتمم کیاگیاہے، محض اتنی سی بات پرا گر رافض وتشنع سے متہم کرنا درست ہوسکتاہے تو بہت سے علماء احناف کو بھی شیعی ورافضی ماننا پڑے گا، کیونکہ انہوں نے بھی مبینہ طور پر افعال صحابہ کو حجت نہیں ماناہے‘بلکہ علماء احناف کی صراحت کےمطابق امام شافعی کو بھی رافضی قرار دیناپڑے گا، کیونکہ انہوں نے بھی افعال صحابہ کو حجت نہیں تسلیم کیاہے [2]ہوسکتاہے آپ امام شافعی رحمہ اللہ کو رافضی مان لیں
[1] ملاحظہ ہو:”غیرمقلدیت کا بانیاور ترک تقلید کےمہلک نتائج “۔ [2] اس مسئلے پر آگے چل کرمفصل ومستقل کلام کیاجائے گا، بروقت اتناہی عرض کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ شرح مسلم الثبوت مولفہ بحر العلوم (ص۴۷۱۔ ۔ مطبوع نول کشور لکھنو ) میں امام شافعی رحمہ اللہ ( قول جدیدمیں ) سمیت ائمہ احناف میں سے علامہ ابوالحسن کرخی اور ایک جماعت کو ان لوگوں میں شمار کیاگیا ہے جو افعال صحابہ کو حجت نہیں مانتے ہیں۔ اسی طرح دیوبندیت کے ایک فاضل مولانا عامر عثمانی لکھتےہیں :”صحابہ بھی من حیث الفردواجب الاطاعت نہیں ہیں۔ ۔ ۔ “ ماہنامہ تجلی دیوبند ڈاک نمبر دسمبر ۱۹۷۲ ء منقول از مجالس (ص:۹)