کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 351
مانی جاتی ہے۔ کیونکہ رفض وتشیع کو رواج دینے میں اس کا اہم رول اور زبردست کرداررہاہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بالل برعکس ہے۔ بعض شیعی محققین اس حقیقت کوماننے کےلیے تیار ہی نہیں ہیں کہ اس نام کی کوئی شخصیت پائی جاتی تھی، جس نے شیعی مذہب کورواج دینے میں کوئی کرادر ادا کیاہو۔ ا ورجو اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں انہوں نے اسے مجروح ومطعون قراردیتے ہوئے اس کا تذکرہ کیا ہے چہ جائیکہ شیعی مذہب کورواج دینے میں اس کے کسی رول کا اعتراف کیاہو۔ [1] حقیقی معنوں میں شیعی مذہب کا حامل اس قسم کی بات اپنے منہ سے ہرگز ہرگز نہیں نکال سکتا۔ یہیں سے اس واقعہ کا من گھڑت واضح ہوجاتاہے۔ اسی طرح سے صحابہ کرام کے کم علم ہونے یا کم حدیثیں یا د ہونے کی جوبات کہی گئی ہے بعید نہیں کہ اس میں نمک مرچ لگا کر مبالغہ آمیزی سے کام لیاگیا ہو اور بات کارخ گھماکر کچھ کاکچھ بنادیا گیا ہو۔ ا س طرح کی حرکات کا مظاہرہ آج کل بھی کیاجاتاہے۔ بات کچھ کہی جاتی ہے لیکن اس کا رخ موڑ کر کچھ کا کچھ بنادیاجاتاہے۔ لہذا مستعبد نہیں کہ صحابہ کے بارے میں محدث بنارسی نے یہ کہا ہوکہ ا س وقت احادیث کے جمع نہ ہونے کی وجہ سے ہرصحابی کو تمام احادیث کاعلم نہیں تھا۔ [2] اسی بات میں نمک مرچ لگاکر یہ کہہ دیاگیا کہ مولانا محدث بنارسی کا یہ کہنا ہے کہ صحابہ کرام کو چند حدیثیں ہی یاد تھیں۔ ان کےتعلق سے بنارس ومضافات بنارس میں غیر مقلدیت کی ترویج واشاعت کی جوبات کہی گئی ہے اور ہزار ہاکی تعداد میں لوگوں کو قید مذہب سے آزاد کرانےکا جو دعویٰ کیاگیاہے اگر مبنی برحقیقت ہوتا تو آج بنارس ومضافات بنارس کی وہ شکل نہیں ہوتی جس کا مشاہدہ کیا جارہاہے، بنارس کی آدھی نہیں تو کم از کم تہائی مسلم آبادی ان کی تبلیغ سےمتاثر
[1] تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب ”عبداللہ بن سبا عقائد ونظریات کےآئینہ میں“ [2] اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی مثال کافی ہے۔ جن کے بارے رکوع میں تطبیق سے فتاوی دارالعلوم مکمل ومدلل (۲/۱۶۹۔ ۔ ۔ ۱۷۰) میں مرقوم ہے : ”یہ قصہ تطبیق فی الرکوع کاصحیح ہے، ا س کی تاویل علماء نے یہ فرمائی ہے کہ ممکن ہے کہ ا سکا نسخ ان کومعلوم نہ ہواہویا ان کا مذہب خیبرکا ہو۔