کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 35
ایمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی تسلیم وتصدیق نہیں تھا؟ سبھی جانتے ہیں کہ انہوں نے زبردستی کسی خارجی دباؤ میں اکر اسلام نہیں قبول کیاتھااور نہ ہی انہوں نے اپنے آپ کو ایمان لانے پر مجبور پایاتھا، بلکہ ان کے پاس رب کی کتاب اور رسول کی سنت خود انہی کی زبان میں پہنچی جس کوانہوں نےسمجھا اور پررکھا، ا س میں انہیں صداقت وحقانیت نظر آئی، لہٰذا وہ مشرف بہ ایمان واسلام ہوئے، ا یمان لائے اور اس کی تصدیق کی اور کہا :
﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّارَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ﴾ ( آل عمران :۱۹۳)
ترجمہ: ’’مالک ہمارے ! ہم نے ایک پکار نے والے کی سنی ( یعنی حضرت محمدیا قرآن کی )جوایمان کی منادی کرتاہے ( کہتا ہے) ایمان لاؤ اپنے پروردگار پر، توہم ایمان لائے، مالک ہمارے! ہمارے گناہوں کو بخش دے، ا ور ہماری برائیاں اتاردے، اور نیک لوگوں کے ساتھ ہمیں موت دے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کوشرف قبولیت بخشااور ان سے اجروثواب کا وعدہ فرمایا:
﴿فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ﴾ (آل عمران :۱۹۵)
ترجمہ: ’’پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا اس طرح قبول کی (فرمایا ) میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کا (نیک ) کام اکارت (ضائع ) نہیں کرنے کا، مرد ہو یا عورت، سب برابر ہیں۔ ‘‘
اور فرعون کا ایمان قابل قبول نہیں ہواجس وقت اس نے اضطراری طور پر ایمان قبول کیا اور موسیٰ علیہ السلام کے رسالت کی تصدیق اس وقت کی جب اس نے اپنے آپ کو انفعالی طور پر یقین ایمان پر مجبور پایا۔ لہٰذا اس کو نہ توثواب ہی حاصل ہوااور نہ اس کا