کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 348
تہمتوں کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتاہے جنہیں ایوان تقلید کےمحققین ایک ناقابل انکار حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر جماعت اہل حدیث ( جس کو وہ غیر مقلدین اور لامذہبیت سے تعبیر کرتے ہیں ) کو نہ صرف گستاخ صحابہ، اہل تشیع اور روافض کاہمنوا بلکہ چھوٹے روافض قرار دیتے ہیں۔ جس پرکوئی بھی صاحب عدل وانصاف یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا: سُبْحَانَکَ ھَذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ کیا علماء اہل حدیث گستاخ صحابہ ہیں ؟ اس سلسلے میں دو بلکہ تین طرح کی باتیں بطور دلیل پیش کی جاتی ہیں : (۱)بعض علماء اہل حدیث کی ایسی تحریروں کو بنیاد بنایا جاتاہے جن میں بطاہر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےمتعلق نارواباتیں کہی گئی ہیں۔ اس تعلق سے نواب وحیدا لزماں حیدرآبادی رحمہ اللہ کا نام خاص طور سے لیاجاتاہے، حالانکہ خود انہی سے مقنول تحریروں کے ایسے نمونے بھی سابقہ صفحات میں پیش کیے گئےہیں جوصحابہ کرام کی تعظیم وتقدیس اور ان کے احترام وتوقیر کی زندہ مثال کی حیثیت رکھتے ہیں، البتہ ان کی تحریروں جن میں بعض صحابہ کرام کےحق میں نامناسب باتیں پائی جاتی ہیں دوحالتوں سے خالی نہیں ہیں۔ یا تو وہ تحریریں اس زمانہ کی ہیں جب کہ وہ متشدد اور غالی قسم کے شیعی تھے، یہ عرض کیاجاچکاہے کہ موصوف کی زندگی کےتین مراحل تھے۔ ایک مرحلہ میں غالی قسم کے شیعی تھے۔ دوسرے مرحلہ میں حنفی مقلدتھے، تیسرے مرحلہ میں شیعیت اور تقلید ترک کرکے اہل حدیثیت اختیار کرلی تھی پھر بھی ان کےیہاں تشیع کے کچھ اثرات باقی رہ گئے تھے، یا تو وہ تحریریں اسی آخرمرحلے کی ہیں جن میں ان کے یہاں تشیع کی معمولی سی جھلک پائی جاتی ہے، جیساکہ تیسیر الباری کے بعض حوالے سےحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کےحق میں ان کی ایک تحریر پیش کی گئی۔ لیکن اس قسم کی تحریروں سے ان کو غالی شیعی قرار دینا اور ان کی پاداش میں پوری جماعت اہل حدیث کوچھوٹے روافض کا خطاب دینا حددرجہ ظلم وزیادتی ہے۔ اگر اس