کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 347
کی کاوشوں اور تالیفات کی تفصیلی معلومات فراہم نہ ہونے کی بناپر تذکرہ نہیں کرسکے ہیں۔ بہرحال پاکستانی اہل علم میں علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ دشمانن صحابہ کی تردید وابطال میں سر فہرست تھے۔ اگر یہ کہاجائے کہ موصوف نے اسی راہ میں جام شہادت بھی نوش فرمایا توشاید غلط نہ ہو۔ اس قسم کی تفصیل سے کسی طرح کا احسان جتلانا مقصود نہیں ہےکہ علماء اہل حدیث نے اپنےا س عمل کے ذریعہ کسی کےا وپر احسان کیاہے، بلکہ احترام صحابہ اور ان کے تقدس کےپیش نظر اپنے اوپرعاید بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ادنی کوشش کی ہے، تاہم اتنا عرض کرنے کی ضرور جسارت کریں گے کہ جس جماعت کا یہ پس منظر ہوجس کے افراد کے یہ کارنامے ہوں اور جنہوں نےا پنی کتابوں میں صحابہ کرام کےتعلق سے اپنے عمدہ اور والہانہ جذبات وخیالات کا اظہار کیاہو‘ اس جماعت کو اورا س جماعت کے اہل علم کوحددرجہ جرأت اوردیدہ دلیری کے ساتھ افتراپر دازی اور تہمت تراشی کا سہارا لے کر روافض واہل تشیع کا ہم نوا قراردینے کی کوشش کی جارہی ہے، بلکہ ”چھوٹے روافض “ کا لقب عطا کرکے اپنے قلب وجگر کوسکون پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیااسی طرح رفض وتشنیع کی ہم نوائی ہوتی ہے ؟ کیا ایسے ہی لوگوں کو چھوٹے روافض کہاجاتاہےجنہوں نے دشمنان صحابہ کی ہر طرح کی دریدہ دہنی کا مقابلہ کیا، ا ور ان کی تبرابازی کا منہ توڑ جواب دیا، ناموس صحابہ کی خاطر جان کی بازی لگادی، عظمت صحابہ اور تقدس صحابہ پر مبنی کتابیں تصنیف کرکے ان کے ڈگیر لگادئیے ؟ یا تو ان حضرات کو رفض وتشیع کی ہم نوائی کا معنی نہیں معلوم ہے یا اپنے اکابرین کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ اگر انہیں اپنے اکابرین کی تاریخ سے واقفیت ہوتی تو ہرگز ہرگز جماعت اہل حدیث کو چھوٹے چھوٹے روافض کا خطاب نہ دیتے۔ یا پھر انہیں اپنے اکابرین کی تاریخ بھی معلوم ہے لیکن ا س کی پردہ دری کےلیےیہ سارے ڈرامے رچے جارہے ہیں۔ جوبھی صورت حال ہوآئندہ صفحات میں مولوی ابوبکر غازی پوری اور ان کے ہم نواؤں کےمتقدمین ومتاخرین کی تقدیس صحابہ کی ایک جھلک خود انہی کی تحریروں کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ تاکہ احترام صحابہ کے دعویٰ کی حقیقت واشگاف ہوکر لوگوں کے سامنے آجائے۔ لیکن اس سے قبل ان