کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 344
کرتے ہیں۔ یہ صرف میاں سید نذیر حسین رحمہ اللہ ہی کا موقف نہیں تھا، بلکہ ان کے شاگردان رشید کابھی صحابہ کرام کے بارے میں یہی موقف تھا۔ جنہوں نے اپنی مختلف تالیفات میں ان نفوس قدسیہ سے اپنی اسی طرح کے قلبی لگاؤ اور والہانہ عقیدت کا اظہار کیاہے۔ میاں صاحب کے ایک خاص شاگرد حضرت مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی رحمہ اللہ جن کے تعلق سے بھی مولوی ابوبکر غازی پوری کے دل میں بغض وحسد کی ایک موٹی تہ جمی ہوئی ہے، گاہے بپاہے ان پر کیچڑ اچھال کر، اور مختلف قسم کی جھوٹی سچی تہمتیں عائد کرکے اپنے دل کا پھپھولا پھوڑنے کی سعی بلیغ کرتے رہتے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کےتعلق سے اپنے قلبی لگاؤ کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں : ”وھذا کله، مع ماکان فیھم فی أنفسھم من الشفقة والتورع والخشوع والتواضع والایثار والجھاد فی اللّٰہ حق جھادہ وفضیلة الصحبة ولولحظة لایوازیھاعمل ولاینال درجتھا بشیء والفضائل لاتؤخذ بقیاس، ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ مع یشاء(تحفۃ الاحوذی (۴/۳۶۰) صحابہ کرام کو گالی دینے یا ان کو برا بھلا کہنے کی سخت ممانعت سے متعلق حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ”لاتبسواأصحابی“ کی شرح کرتے ہوئے اور نہایت شدید وقت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامے درمے نصرت وتائید میں ان کی پیش قدمی اور سبقت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”ان تمام اوصاف کے ساتھ ان کے اندرفی نفسہ کوف الٰہی، ورع وتقویٰ، خشوع وخضوع، تواضع وانکساری، ا یثار وقربانی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کماحقہ جہاد کے اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے، ا ور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت خواہ ایک لمحہ کےلیے ہی کیوں نہ ہو‘ایسی سعادت ہے جس کے مقام ومرتبہ کوکوئی عمل نہیں پہنچ سکتا ہےا ور نہ کسی چیز کے ذریعہ اسےحاصل کیاجاسکتاہے۔ ا ور نہ فضائل ومناقب بذریعہ قیاس ثابت کیے