کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 342
مولوی محمد فصیح غازی پوری کے اس فتویٰ کاعلامہ سید نذیر حسین رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ کے تقریبا ً ۹ صفحات میں مفقصل تعاقب کیا ہے۔ فرماتے ہیں :
”اہل عقل ودیانت پر مخفی نہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابی ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کو گالیاں نہ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ان کا ایک ساعت بیٹھنا تمہارے چالیس سال کےا عمال سے بہتر ہے۔ وکیع کی روایت میں ”عمر بھر کےا عمال سے بہتر ہے “ کےالفاظ ہیں۔ آپ فتح مکہ کے دن ایمان لائے، آپ سےا یک سوترسٹھ احادیث مروی ہیں جوصحاح ستہ میں اور دوسعی کتابوں میں مروی ہیں۔ ا ن سے بڑے بڑے صحابہ نے روایت کی، مثلاً عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، ا بوالدرداء، جریر بن عبداللہ بجلی، نعمان بن بشیر وغیرہ ۔ ا ور تابعینمیں سے سعید بن مسیب، حمید بن عبد الرحمن وغیرہ روایت کرتے ہیں چنانچہ اس کی تصریح کتب اسماء الرجال وسیرت میں موجود ہے۔ اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےحق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ ! اسے ہادہ ومہدی بنادے “۔
اسی طرح صحیح بخاری ودیگر کتب حدیث کےحوالوں سے آپ کے بارے میں واردمتعدد احادیث کا ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :
”صحیح بخاری میں جوکہ حدیث کی کتابوں میں سے صحیح ترین کتاب ہے، آپ کا صحابی ہونا اور بزنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عادل اور فقیہ ہونا ثابت ہوگیا توآپ ترضی اور ترحم کے مستحق ہوں گے، کیونکہ اہل سنت کے نزدیک صحابہ کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ کہنا بالاتفاق مستحب ہے۔ ا ور صحابی ہونے کی حیثیت سے ان کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بھی ”حضرت “اور ”رضی اللہ عنہ“ کے الفاظ کہنا مستحب ہے، ممنوع نہیں ہے۔ کیونکہ آپس کی لڑائی سے صھابہ صحابیت کی بزرگی سے محروم نہیں ہوجاتے۔ ہاں رافضی کا مذہب اس کےخلاف ہے۔ البتہ امیر معاویہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ میں درجے کا بہت فرق ہونا بھی بعید نہیں ہے، کیونکہ حضرت علی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، کثیر الصحبہ ہیں،