کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 34
’’خبر کی اس دوسری قسم کوصحیح کہاجاتاہے، ترجیحی اعتبار سے کہ جزم ویقین کےاعتبار سے۔ ا س پر عقل مطمئن ہوتی ہےا ور اعتماد کرتی ہے۔ لیکن اس قسم کی احادیث میں بعض راویوں کی بھول چوک، غلطی اور غفلت کااحتمال عقلاً برقراررہتا ہے۔ شروط صحت کے پیش نظر اگرچہ یہ احتمال حددرجہ ضعیف ہوتا ہے پھر بھی یہ احتمال قائم رہتاہے ۔ “ اورا سی احتمال کی وجہ سے ڈاکٹر بوطی صاحب اور ان کے ہم نوا خبرآحاد کے بارے میں شروع صحت پائے جانے کے باوجود یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں : ”عقائد کے باب میں خبر آحاد کی بنیاد پر لازمی حجت قائم نہیں ہوسکتئ، لہذا اس طرح کی صحیح احادیث کے مفہوم ومضمون پریقین نہ رکھنے کی انسان کو گنجائش رہتی ہے، اور اس سے اس کے ایمان واسلامپر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ البتہ عداولت وثقاہت مجروح ہوسکتی ہے، ا ور اس کا یہ عمل موجب فسق ہوسکتا ہے۔ ‘‘ اور اس کی علت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”چونکہ اعتقاد ایک غیر ارادی انفعال کانام ہے وہ کوئی اختیاری عمل نہیں ہے اس لیے اگر عقل اپنے سامنے کوئی چیز پاتی ہے جواسے کسی امر پر منفعل ہونے اوراس کے یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے تو عقل لامحالہ غیر ارادی طور پر اس یقین کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اس میں اس کے اپنے ارادہ واختیار کاکوئی دخل نہیں ہوتا۔ اورا گر اپنے سامنے ایسی کوئی چیز نہیں پاتی جواس کو منفعل کرکے یقین واذعان پر مجبور کرے تو ضروری طور پر وہ شک وشبہ اورظن وتخمین کے مقام پر توقف کرے گی “۔ [1] یہاں قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ایسے ایمان وعقیدہ کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے جس میں انسان کو اپنے ارادہ یا اختیار کی گنجائش نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس ایمان وعقیدہ پر اپنے آپ کو مجبور اور غیر ارادی طور پر منفعل پاتاہے۔ ا گر معاملہ ایساہی ہے تو کس بنیاد پر اس کو جزاثواب حاصل ہوگا۔ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور جملہ علماء سلف کا
[1] السلفیة مرحلة زمنیة(ص ۶۶)