کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 339
اللہ عنہ کے متعلق ایک نہایت عظیم بات کہی تھی۔ اس پر نواب حید رآبادی رحمہ اللہ نے اپنے کپڑے کا کونہ اٹھائے، اپنے گھٹنے کھولے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے صاحب ( یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ) کسی سے لڑ کرآئے ہیں۔ انہوں نے سلام کیا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، ا ور بیٹھے ) پھرکہنے لگے مجھ میں اورخطاب کے بیٹے ( یعنی حضرت عمررضی اللہ عنہ) میں کچھ تکرار ہوگئی تھی، میں نے جلدی میں ان کو سخت وسست کہہ دیا، پھر میں شرمندہ ہوا اور ان سے معافی چاہی، لیکن انہوں نے انکار کیا۔ اب میں آپ ( کے ) پاس آیاہوں ( آپ ان کو سمجھائیے )۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر ! اللہ تم کو بخشے، تین بار یہی فرمایا، پھر ایسا ہواکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شرمندہ ہوئے، ا ور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پر آئے، ا ور پوچھا ابوبکر ہیں ؟ لوگوں نے کہا نہیں ہیں، آخر حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو سلامکیا، آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈرے، کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمررضی اللہ عنہ پر خفا نہ ہوں ) وہ دوزانو ( مؤدب ) ہوبیٹھے، ا ور عرض کیا یارسول اللہ ! خطا میری تھی، خطا میری تھی، ( میں نے ہی عمر کو سخت وسست کہا تھا)۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لوگو! یہ سمجھ لو ) اللہ نے مجھ کو تمہاری طرف پیغمبر بناکر بھیجا ہ، لیکن تم نے مجھ کو جھوٹاکہا اور ابوبکر نے مجھ کو سچا کہا، ا ور اپنے مال ا ور جان سے میری خدمت کی، تم میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یانہیں ؟ آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھرا بوبکر رضی اللہ عنہ کوکسی نے نہیں ستایا“۔ [1]
[1]