کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 330
اس سلسلے میں ان کی مناظرہ بازی اورا یک دوسرے کی طعن وتشنیع اور تنقیص کے واقعات سے تاریخ اور سیر وتراجم وغیرہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ “
موجودہ دور میں فقہی اختلاف اور ان کے نتیجے میں واقع ہونے والے فتنہ وفساد کی شدت میں کمی کا تذکرہ کرنے کے باوجود لکھتے ہیں :
”لیکن برابر اس قبیل کے ناپسندیدہ واقعات کی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ ا نہیں واقعات میں سے ایک حنفی المسلک افغانی کا یہ واقعہ بھی ہے جس نے صف کے اندر اپنے بغل میں ایک شخص کو سورہ فاتحہ کی قرأت کرتے ہوئے سنا تواس کے سینہ پر ایک زبردست گھونسہ رسید کردیا جس سے وہ اپنی پشت کے بل گر پرا اور قریب تھا کہ اس کی موت واقع ہوجاتی۔ اسی طرح ایک دوسرا واقعہ سننے میں آیا ہے کہ بعض مقلدین مذہب نے تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت دینے پر ایک نمازی کی انگلی ہی کو توڑدیا۔ پچھلی صدی کے اواخر کی بات ہے کہ شام کے شہر طرابلس میں بعض متعصبین مذہب کی ایذ ارسانی سے تنگ آکر کچھ شافعی علماء ملک کے مفتی اعظم جو صدارت کے منصب پر بھی فائز تھے ‘ کے پاس گئے اور مطالبہ کیا کہ ہمارے اور احناف کے مابین مساجد تقسیم کردی جائیں، کیونکہ فلاں حنفی عالم ہمیں ذمیوں کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں ‘کیونکہ انہوں نے آج کل حنفی مرد کی شافعی عورت سے شادی کے مسألے میں احناف کے اختلاف، بعض کے عدم جواز اور بعض دوسرے لوگوں کےجواز کے فتوی کوشہرت دے رکھی ہے، جوعدم جواز کےقائل تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ شافعی عورت اپنے ایمان میں شک کرتی ہے یعنی شافعیہ واشاعرہ وغیرہ کے نزدیک یہ کہنا درست ہے کہ میں ان شاء اللہ مؤمن ہوں۔ ا ور بعض دوسرے حنفی فقہاء شافعی عورت کو ذمی عورت پرقیاس کرتے ہوئے اس سے شادی کوجائز اور درست قراردیتے ہیں “۔
اس کے بعد علامہ موصوف نہایت ہی پرسوز اور درد بھرے لہجے میں سوال کرتے ہیں :
” سلف صالح کی رواداری، شریعت میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ آسانی اور رفع حرج کی خاص رعایت اور اجتہادی آراء کے ذریعہ مسلمانوں کے مابین تفریق سے ان کے اجتناب