کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 33
2۔ دوسرامرحلہ : نصوص کے معانی ومفاہیم سے پوری دقت کے ساتھ اس حد تک آگاہی ھاصل کرلینا ہے کہ اطمینان کامل ہوجائےکہ ان نصوص سے یہی معانی اور مقافہیم مقصود ہیں۔ 3۔ تیسرا مرحلہ : نصوص کے معانی ومفاہیم کی بحث وتمحیص اور چھان پھٹک اور ان کے بارے میں عقل کاموقف معلوم کرنے کے لیے ان کےخلاصہ اور نتائج کو عقل ومنطق کے معیار پر رکھنا ہے اور منطق سے میری مراد درایت ومعرفت کے قواعد ہیں۔ [1] اس کےبعد موصوف نے ہرمرحلہ کی مختلف جزئیات پر تفصیلی بحث کی ہے اور پورے مجموعہ کو علمی منہج کا نام دے کر اسے کتاب وسنت کے نصوص کوسمجھنے میں ضروری قرار دیاہے۔ مذکورہ منہج اور طریق کار کی جزئیات پر گور کرنے سے بغیر کسی شک وشبہ کے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نصوص کی تفسیر وتشریح یا ان کے قبول یا عدم قبول میں آخری فیصلہ کا اختیار عقل ومنطق کوحاصل ہے۔ درحقیقت یہ طریق کار اور منہج متکلمین مبتدعین (خوارج ومعتزلہ، اشاعرہ وغیرہ) کاہے۔ جوشرعی نصوص کو عقل کی کسوٹی پر رکھتے ہیں، جن نصوص کوعقل جائز قراردیتی ہے ان کوقبول کرتے ہیں، ا ور جوان کی عقل سے یا ان کے خود ساختہ منطقی اصول ضوابط ۔ ۔ جن کو وہ قواعد مسلمہ کا نام دیتے ہیں۔ ۔ ۔ سے متصادم معلوم ہوتے ہیں، ان میں تاویل، ان کے معانی کے ابطال، اور بعض ابواب میں ان پرعمل سےتوقف یا اسی جیسے مختلف تصرفات سے کام لیتے ہیں بلکہ ان کو رد کردینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ائمہ سلف کا کبھی بھی یہ موقف نہیں رہاہے۔ حدیث کی متواتر اور آحاد کی تقسیم کے وقت بھی ڈاکٹر بوطی صاحب نے شرعی نصوص کے مقابلہ میں اپنے تعقل پسندانہ رویہ کا اعادہ کیاہے۔ خبر آحاد کے سلسلے میں عقل کےموقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
[1] السفیة مرحلة زمنیة (ص۶۳)