کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 329
دوسرے علماء ا ور ائمہ مذاہب بلکہ صحابہ کرام وتابعین عظام کے احترام وتقدس کو بالائے طاق رکھ کر ان کی تنقیص وتوہین کا رویہ اختیار کریں، گالیاں دیں [1] کتربیونت اور عبارتوں میں خیانت کاعمداً ارتکا ب کرکے دیگر علماء کرام کوتہمتوں اور التزام تراشیوں کی سان پر چڑھانے کا کام انجام دیں، ہمہ دانی کےز عم میں مبتلا ہوکر عبارتوں کوغلط سمجھیں اور ان کا غلط مفہوم متعین کریں اور پھرعلمائے اہل حدیث کوان کی بنیاد پر جاہل قرار دیں، ان کی عبارتوں کیڑے نکالنے بیٹھیں، آیات واحادیث میں مبینہ طور پر کمی وبیشی کا انجام دیں، ا ور اس کے دفاع میں بعض بظاہر سنجیدگی ومتانت سے متصف حضرات قلم سنبھال لیں۔ ان تمام حرکتوں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ یہی حضرات پارسائی، سنجیدگی، صحابہ کرام وائم عظام کی توقیر واحترام، ا مت کی صفوں میں وحدت، شیریں زبانی، کردار کی بلندی، ا ور اس جیسے دیگر تمام اوصاف حسنہ کے تنہا اجارہ دار ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر اہلحدیثوں کی جانب سےکسی ایک جزئی مسئلے پر کوئی ایک معمولی مضمون آگیا توان کی صفوں میں بھونچال آجاتاہے، ا ن کی دوربیں نگاہیں اسی میں سارے فتنوں کومحسوس کرلیتی ہیں، ا مت کی صفوں میں انتشار نظر آنے لگتاہے۔ حرم میں چار مصلے قائم کرکے امت میں اتحاد کے یہی دعویدار ہر چہار جانب سے مراسلوں، مستقل مضامین، کتابوں اور سیمیناروں کے ذریعہ سد باب کی جان توڑ کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ماضی اور حال پر غبار ڈال کر دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ا ور اسے تقرب الی اللہ کا باعث سمجھاجاتاہے۔ مصر کی بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت علامہ رشید رضا رحمہ اللہ نے بھی مقلدین مذاہب کی صورتحال کا اجمالی نقشہ کھینچتے ہوئے لکھاہے کہ :
”ہر ایک نے اپنے مذہب کی تقلید کوحتمی قرار دینے، اور مقلدین مذہب کو ضرورت کے پیش نظر بھی دوسرے مذہب کی تقلید کی اجازت نہ دینے میں شدت سے کام لیاہے۔ اور
[1] اگرگالیوں کے نمونے ملاحظہ کرنے ہوں تو”انتقاد صحیح بجواب ذیل رکعات تراویح“ کی طرف رجوع کیاجاسکتاہے۔ مؤلف نے کتاب کے شروع میں ان کے اکابرین کی گالیوں کےا چھوتے نمونے خود ان کی کتابوں سے جمع کردیئے ہیں۔ ( ۲۵ومابعد )