کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 327
کتابوں میں چوتھی صدی ہجری کےا واخر سے ہی مسلکی تعصب کی بناء پر فضا مکدر دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جس کے بارے میں شاہ ولی اللہ دہلوی کے بقول ائمہ اربعہ کی تقلیدکا رواج ہواتھا۔ عباسی خلیفہ قادر باللہ نے ۳۹۳ھ میں شافعی عالم ابوحامد اسفرائینی کے مشورے پرق اضی بغداد محمد ابن الاکفانی حنفی کو معزول کرکے ابوالعباس احمد بن محمد البارزی شافعی کو منصب قجاء پر متعین کردیاتھا۔ اسفرائینی نے محمود بن سبکتگین اور اہل خراسان کو ا س کی اطلاع دیتے ہوئے خط لکھا کہ ”خلیفہ نے منصب قضاء احناف سے لے کر شوافع کو دے دیا“جس سے اس مسئلہ کو کافی شہرت حاصل ہوگئی۔ اہالیان بغداد دوگروہوں میں تقسیم ہوگئےا ور ان کے مابین فتنے کی آگ بھڑک اٹھی۔ مجبوراً خلیفۂ وقت نےا عیان شہر کو اکھٹا کیا، ا ور ان کے سامنے ایک خط رکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسفرائینی نے نصح وخیر خواہی کے نام پر امیرا لمؤمنین کے کان بہت سی باتوں سے بھردئیے تھے۔ بعد میں خلیفہ پر واضح ہوگیا کہ یہ ساری باتیں خیر خواہی وامانتداری کی نہیں، بلکہ مطلب براری اور بددیانتی کے تحت کہی گئی تھیں“ لہذا علامہ علامہ بازری کو معزول کرکے منصب قضاء احناف کو دیاجاتا ہے، اور انہیں جومقام وعزت پہلے حاصل تھی دوبارہ بحال کی جاتی ہے۔ [1] اس سے بھی بیشتر ۳۲۳ھ کے واقعات میں علامہ ابن الاثیر رقم طراز ہیں : ”اس سا ل ( بغداد میں ) حنابلہ کوکافی غلبہ حاصل ہوگیا تھا، اور ان کی طاقت وقوت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ انہوں نے عمائدین اور عوام کےگھروں پر چھاپہ مارنا شروع کردیا تھا۔ اگر وہ کہیں نبیذ پاتے تو اسے بہادیتے، گانے بجانے ولای عورتیں ملتیں تو زدوکوب کرتے، آلات موسیقی کو توڑڈالتے۔ غرض کہ انہوں نے بغداد میں ایک سورش برپا کررکھی تھی۔ پولیس آفیسر نےشہر بغداد کے دونوں کناروں پر منادی کراکر حنابلہ پر دفعہ ۱۴۴ نافذ کررکھا تھاکہ کہیں بھی دوحنبلی شخص اکٹھا نہیں ہوسکتے۔ نماز کی امامت جہری نمازوں میں ”بسم اللہ “
[1] نظرۃ تاریخیۃ فی حدوثا لمذہب أحمد تیمور(ص۹، ۱۰) منقول از”بدعۃ التعصب المذھبی “ (ص۲۱۳)