کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 326
اور اپنے بھائیوں کو بھی اسی مقصد سے خط لکھنے والے تھے۔ [1]
فخر الدین رازی جب شاہ غزنہ کے پاس پہونچنے تو شاہ گزنہ نے رازی کا خیر مقدم کیا اورنہایت عزت واکرام کے ساتھ ان کا استقبال کیا، ہر ات میں ان کے لیے ایک مدرسہ بھی بنوادیا، چونکہ اہل خراسان ابن کرام [2]کے معتقد تھےا س لیے شاہ غزنہ کے اس عمل پرخراسان میں ایک زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ علامہ رازی کی مخالفت میں ایک بڑا فتنہ کھڑا کردیا۔ ا ن سے مناظرہ بازی ہوئی، جو سب شتم اور گالی گلوچ پر انجام پذیر ہوا۔ ایک شخص نے جامع مسجد میں تقریر کی، ا ور رازی کے افکار ونظریات پر نکیر کرتےہوئے عوام کو ان کےخلاف خوب ورغلایا، مجبورا شاہ غزنہ کوانہیں ملک چھوڑدینے کا حکم دینا پڑا۔ [3]
دمشق میں بھی ایک دوسرے بڑے فتنہ کا تذکرہ کیا ہے جو علامہ عبدالغنی مقدس کے سبب بھڑک اٹھا تھا۔ مسجد اموی میں ضنابلہ کےلیے جو جگہ مخصوص کردی گئی تھی اس میں آپ درس دیاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ اثناء درس آپ نےا للہ تعالیٰ کی صفات کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ جس پر دیگر مذاہب کے لوگ بپھرگئے۔ امیر صارم الدین برغش نے ایک مجلس مناظرہ کا اہتمام کیا جس میں فقہاء نے آپ سے مناظرہ کیا، جوکسی نتیجہ پر نہیں پہونچا۔ ا میر نے آپ کوشہر چھوڑدینے کا حکم دیا۔ ا ور قیدیوں کوآزاد کردیا جنہوں نے جاکر حنابلہ کے منبر کو توڑ ڈالا۔ اس دن سورش اور ہنگامہ کی وجہ سے حنابلہ کے محراب میں ظہر کی نمازنہیں پڑھی جاسکی، اور وہاں محفوظ صندوق اور الماریوں کولوگ نکال کر لے بھاگے، ا یک عظیم تباہی مچی رہی “[4]
ایسانہیں ہے کہ اس قسم کی صورتحال بہت بعد میں چل کر پیدا ہوئی تھی۔ تاریخ کی
[1] البدایة (۱۳/۱۸)
[2] فرقہ کرامیہ کا بانی محمد بن کرام سجستانی ( م ۲۵۵ھٰ مختلف مبتتدعانہ عقائد کا حامل تھا، اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کا قائل تھا، ملاحظہ ہو: سیراعلام النبلاء (۱۱/۵۲۳)
[3] البدایة (۱۳/۱۹)
[4] أیضاً (۱۳/۲1)