کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 325
کے باعث اس شہر کے مختلف علاقوں میں ویرانی چھائی ہوئی ہے، (حالت یہ ہے کہ ) جب بھی کوئی گروہ غالب آتاہے دوسرے گروہ کے محلوں میں بغیر کسی رورعایت کے لوٹ مار مچاتا آتش زنی اور تباہی پھیلاتا ہے، یہی حالت قصبوں اور دیہاتوں کی بھی ہے “[1]
اسی طرح شہر ”ری“ کے تذکرے میں بھی ۶۱۷ھ میں وہاں اپنی آمد اور وہاں کی تباہی کا آنکھوں دیکھا حال ذکرکرتےہوئے لکھتے ہیں :
”اہالیان شہر تین فرقوں میں منقسم تھے، (۱) شوافع، و ہ اقلیت میں تھے، (۲)ا حناف، ان کی کثرت تھی، (۳)اہل تشیع، ا ن کو اغلبیت حاصل تھی، ا بتداءً سنیوں اور شیعوں کے مابین گروہی عصبیت پیدا ہوئی، احناف اور شوافع نے مل کر ان پر غلبہ حاصل کرلیا، ا ور ایک طویل عرصہ تک جنگ جاری رہی، یہاں تک کہ سنیوں نے شیعوں کا بالکل صفایا کردیا۔ جب ان سے چھٹی ملی تو شوافع اور احناف کے مابین مسلکی تعصب نے جگہ لے لی، اور ان کے درمیان جنگی سلسلہ شروع ہوگیا۔ تمام جنگوں میں قلت تعداد کے باوجود شافعیوں کا پلہ بھاری رہتا۔ مضافاتی علاقوں کے باشندے جوحنفی المسلک تھے، مسلح ہوکر اپنے ہم مذہب بھاری رہتا۔ مضافاتی علاقوں کےباشندے جوحنفی المسلک تھے، مسلح ہوکر اپنے ہم مذہب لوگوں کی مدد کےلیے شہر پہونچتے، لیکن ان کا آنا بےسود ہوتا۔ اس کا سلسلہ برابر جاری رہا تاآنکہ سب فنا کے گھاٹ اتاردیئے گئے۔ ا ہل تشیع اور احناف میں وہی شخص زندہ بچ سکا جس نے اپنے مذہب کو مخفی رکھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مکانات زمین دوز اورا تنی تنگ وتاریک گلیوں کے بعد بنانا شروع کیا جہاں تک رسائی سخت دشوار گزار ہوتی تھی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید ان میں سے کوئی زندہ نہ بچتا“۔ [2]
اسی قسم کے متعدد واقعات حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیے ہیں، چنانچہ عزیز مصر ملک افضل ابن صلاح الدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے ۵۹۵ھ میں یعنی جس سال ان کی وفات ہوئی تھی اپنے شہر سے حنابلہ کونکال باہر کرنے کا عزم مصعم کرلیا تھا،
[1] معجم البلدان (۱/۲۰۹)
[2] معجم البلدان (۴/۳۵۵، ۳۵۶)