کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 323
اس لیے انہیں ادب واخلاق کا پیکر مجسم ہونا چاہیے۔ لیکن یہ مناظرے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا مطلوب نہیں ہوتی ہے بہت سے لوگوں کو اس مقام تک پہونچادیتے ہیں جس کی وضاحت خودا یک ایسے شخص نے کی ہے جوا س کا شکار ہوچکاتھا“اسے اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ ا بن السبکی طبقات میں لکھتے ہیں :”ابوحبان توحیدی کہتےہیں : میں نے شیخ ابوحامد کو طاہر عبادانی سے کہتے ہوئے سنا ہے :”جدل ومناظرہ کی مجلسوں میں جوکچھ تم مجھ سے سنتے ہو اسے نہ اخذ کیا کرو، کیونکہ مناظرہ میں مد مقابل کو جل دینے، مغالطہ میں مبتلا کرنے، ا س کو دبانے اور اس پر غلبہ ھاصل کرنے کی غرض سے بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضامقصود نہیں ہوتی، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہوتی توخاموشی اور سکوت کی جانب ہمارے قدم زیادہ تیزاٹھتے،۔ ۔ ۔ ۔ “[1]
بعض لکھنے والوں نے متأخرین فقہاء کے یہاں مناظرہ کی گرم بازاری کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھاہے کہ دجلہ وفرات کے ساحلوں پر مناظرہ کےا سٹیج سجائے جاتے، جن میں زبان کے آزادانہ استعمال کے ساتھ ہاتھ پاؤں کا بھی برملا استعمال کیاجاتا، اور نوبت ایک دوسرے کی داڑھیوں کونوچنے اور خونریزتسادم تک جاپہنچتی۔ اسی مناظرہ بازی کے قمصد نیک ( ؟) کی خاطر رمضان روزے ترک کرنے کا فتوی سادر کیاجاتا، کہ مناظر صاحب کو روزے کی وجہ سے مشقت نہ اٹھانی پڑے۔
قارئین کرام نے ملاحظہ کیا کہ جس تقلید کو دین کی حفاظت وبقاء اور امت کی صفوں میں اتحاد ویگانگت پیدا کرنے کےلیےضروری قرار دیاجاتا ہے اوراس پر ہر دور کے علماء کا اجماع نقل کیاجاتا ہے“ اس تقلید نےحفاظت وبقاء تو درکنار دین کا تیا پانچا کرکے رکھ دیا ہے۔ اتفاق واتحاد کنا امت کو مختلف ٹکڑیوں میں اسطرح تقسیم کرکے رکھ دیا کہ ہر گروہ دوسرے گروہ کےخلاف برسر پیکار نظر آتاہے۔ ہر ایک کا دل دوسرے کےخلاف بغض وحسد اور نفرت وعداوت سے لبریز معلوم ہوتاہے۔ اس کے واضح اثرات مذہب کی مختلف کتابوں
[1] ملاحظہ ہو تاریخ التشریع الاسلامی (ص ۲۸۳۔ ۲۸۹)