کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 322
مجالس مناظرہ کی اتنی بہتات ہوگئی تھی کہ کوئی بھی بڑا شہران مجالس سے خالی نہیں ہوتاتھابالخصوص عراق وخراسان کے شہر۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وزراء واعیان کی موجودگی میں اس قسم کی مجالس منعقد ہوتی تھیں جن میں بیشمار اہل علم وفضل حاضر ہوتے۔ تعزیت کی محفلوں میں بھی مناظرہ کی مجالس منعقد ہوتی تھیں۔ ا بو الولید الباجی لکھتے ہیں :
”بغداد میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ جب کسی کا کوئی عزیز انتقال کرجاتا تووہ اپنے محلہ کی مسجد میں چند دن کے لیے بیٹھ جاتا، ا س کےخویش واقارب اور پڑوسی بھی اس کے ساتھ بیٹھتے، جب چند دن گزرجاتے توا س کی تعزیت کی جاتی، صبر وتحمل کی تلقین کے ساتھ معمول کے کام کاج لگ جانے کی تلقین کی جاتی، جتنے دن وہ اپنے خویش واقارب اور پڑوسیوں کے ساتھ اپنی مسجد میں تعزیت کے لیے بیٹھتے اتنے عموماً قرآن کی قرأت جاری رہتی یا فقہاء بحث ومناظرہ کی مجالس گرم رکھتے “۔
اس کے بعد موصوف علامہ محمد خضری بک نے مناظرہ کےا سباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ :
”مناظرہ بازی کا اہم سبب امراء وسلاطین کی خواہش کی تکمیل تھا، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے خود فریبی کا شکار ہوکر یہ سمجھ رکھاہے تھاکہ ان کا مقصد شریعت کے دقائق کا استخراج واستنباط، مذاہب کے علل وحکم کا اثبات اور اصول فتاوی کی تمہید ہے “۔
اس کے بعد مندرجہ ذیل امور کو مناظرہ کے نتائج کے طور پر شمار کیاہے:
”بغض وحسد، کبر، لوگوں پر اپنی برتری جتلانا، غیبت وچغل خوری، تجسس، لوگوں کے پوشیدہ عیوب کے درپے ہونا اور انہیں ظاہر کرنا، لوگوں کی غمی پرخوش ہونااور خوشی پر غمگین ہونا، نفا ق قبولیت حق سےا نکار، ریاء کا ری، عوام کی مدارات اور ان کو اپنی جانب مائل کرنے کی پوری کوشش کرنا۔ یہ تما م امور بحث ومناظرہ کے ایسے سنگین نتائج ہیں جن سے کوئی مناظرہ باز محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اور جوفقہاء کرام کو ان کے اپنے اصل مقام ومرتبے سے بہت نیچے گرادیتے ہیں۔ چونکہ فقہاء شریعت کے محافظ اور دین کے نگراں ہوتے ہیں