کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 321
کچھ بھی نہیں نکلا ہے۔ [1]
باوجودیکہ جدل ومناظرہ کوایک مستقل بالذات فن کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی اور اس کے اصول وضوابط وضع کیے گئے تھے“ جن کی رعایت مناظروں میں ضروری خیال کی جاتی تھی، لیکن عملی طور پر اس کے برخلاف عموما مناظروں میں مد مقابل پر کسی بھی طریقے سے غلبہ حاصل کرنا مقصود ہوتا تھا۔ علامہ خضری بک تاریخ فقہ کے چوتھے دور پرکلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”پہلے پہل علم کلام میں بحث ومناظرہ کی مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں، جن کےنتیجے میں آپس میں زبردست تعصب اور غیر معمولی خصومات کی فضا قائم ہوگئی جس سے خونریزی اور تخریب کاری کوخوب ہوا ملی۔ بعد میں بعض حکام کی توجہ فقہی امور میں مناظرہ بازی اور مخصوص طور پر امام ابوحنیفہ وامام شافعی کے مذاہب میں راجح کی توضیح وبیان کی جانب مائل ہوئی تولوگوں نے علم کلام اور دیگر علوم وفنون کوچھوڑ کر مخصوص طریقے سے دونوں اماموں کے مابین اختلافی مسائل کوموضوع بحث بنالیا۔ امام مالک، سفیان، ا حمد (رحمہم اللہ ) اور دیگر ائمہ کرام کےاختلافی مسائل میں تساہل سے کام لیا“۔
فقہ کے باب میں جدل ومناظر ہ کے تدریجی ارتقاء کوواضح کرتےہوئے لکھتے ہیں :
”سابقہ ادوارمیں بھی بحث ومناظرہ کا ذکر ملتا ہے، اس قسم کے بہت سےواقعات کا تذکرہ خود امام شافعی نے کیاہے، جوآپ کے اور فقیہ عراق امام محمد بن حسن کے مابین پیش آئے تھے۔ لیکن بظاہر ان منا ظروں کا مقصد صحیح حکم کے استنباط واستخراج تک رسائی ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ ظہور حق کے بعد آراء ونظریات کی تبدیلی میں ان کے یہاں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی تھی۔ کیونکہ وہ آزاد تھے، کسی مذہب اور رائے کے پابند نہیں تھے۔ لیکن زیر نظر عہد میں بحث ومناظرہ کی کثرت اور ا س کے اسباب ونتائج میں کافی تبدیلی پیدا ہوگئی۔
[1] ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت (۱/۱۹۸۔ ۱۹۹) فتاوی تاتارخانیہ کی عبارت ”۔ ۔ ۔ أویکون الناظر فیه قلیل الفقہ او طالبا للغلبۃ لا للحق