کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 32
جاتاہے سب سے آخری کڑی ہے، لہٰذا ایک مزید دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تمام قواعد کہاں گئے جن پر امام شافعی سے پہلے صحا بہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اعتماد کرتے تھے تاکہ ہم یہ کہہ سکیں کہ انہی قواعد وضوابط کی روشنی میں صحابہ کی اقتداء کرتے ہیں۔ کاش ڈاکٹر بوطی صاحب قدرے توقف فرماکر امام شافعی رحمہ اللہ کے وضع کردہ اصول وضوابط پر غور کرتے تو انہی معلوم ہوجاتا کہ امام شافعی بھی ائمہ سلف میں سے ہی ایک امام ہیں جنہوں نے اپنے پیش روعلماء کے نہج اور اصول پر کتاب وسنت کی دعوت وتبلیغ میں پوری زندگی صرف کردی۔ لیکن توقع کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر بوطی صاحب خود ایک علمی منہج پیش کررہے ہیں جس کے بارے میں موصوف کا اعتقاد ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بجاآوری اور کامل اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس منہج کا اپنانااشد ضروری ہے۔ چنانچہ موصوف لکھتے ہیں : ”عقیدہ وسلوک دونوں اعتبار سے اسلام کو بجالانے کے لیے تین مرحلوں ست گزرنا لازم ہے۔ “ 1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد اور چابت شدہ نصوص ( خواہ قرآن کریم کی شکل میں ہویااحادیث کی شکل میں ) کی صحت پر مکمل اطمینان حاصل کرلینا، تاکہ ان کے بارے میں یقین کامل ہوجائے کہ ان کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جا نب درست ہے، اور آپ پر گھڑے ہوئے نہیں ہیں۔ [1]
[1] موصوف سلفیت سے عداوت ودشمنی میں اس حد کو پہنچنے ہوئے ہیں کہ ان کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ وہ اپنی نوک قلم سے کیا لکھ رہے ہیں۔ کیاقرآن کریم کے بارے میں بھی اس بات کی ضرورت باقی ہے کہ اس کی صحت کی معرفت حاصل کر کے اطمینان حاصل کیاجائے ؟ ایسے شخص کے بارے میں کیاکہاجائے گا جواس بات کا عقیدہ رکھتا ہو کہ آیات قرآنیہ کی تمحیص وتمیییز پر عقل کوقدرت حاصل ہے ؟ کیا ایسے دوشخصوں کی کوششوں کویکساں طور پر صحیح قراردیاجائے گا جن میں سے ایک قرآن کریم کے صحیح نصوص کی معرفت کا خواہاں ہے،۔ ا ور دوسرا سنت کے صحیح نصوص کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے، موصوف کی سلفیت دشمنی معلوم کرنی ہوتو عید عباسی کی تالیف کردہ کتاب ” بدعة التعصب المذھبی“ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔