کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 319
مسنون طریقہ نہیں ہے۔ کیونکہ انہیں اہلحدیثوں کے رد میں ا س کا موقع ہی نہیں ملا کہ عوام کویہ بتلاسکیں کہ طلاق کا یہ مناسب ومسنون طریقہ نہیں ہے۔ اگر کسی نے اس کے نامناسب ہونے کی جانب اشارہ بھی کیا تواس کو مثالوں کے ذریعہ ایسی شکل دیدی کہ اس کی غیر مسنونیت کی جانب ذہن ہی منتقل نہ ہو۔ چنانچہ کہا گیا کہ اگرچہ ایک ہی مجلس کی تین طلاق غیر مسنون ہے لیکن ان کو نافذ ماناجائے گا اور ان تینوں کے نفاذ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص بذریعہ ٹرین بلاٹکٹ کہیں کا سفر کرتا ہے جونامناسب ہے۔ غیر مناسب ہونے کے باوجودوہ شخص اپنی منزل مقصود کو پہنچ جاتاہے ۔ فقیہ صاحب نے بظاہر اس خوشنما وخوش کن مثال کے ذریعہ تینوں طلاق کے نفاذ کوخدادادقیاسی واجتہادی صلاحیت کے ذریعہ حل کرنے میں کامیابی حاصل کرلیا ور حاضرین مجلس سے سبحان اللہ، سبحان اللہ کی فلک شگاف گونج کے ساتھ داد تحسین بھی حاصل کی ہوگی۔ لیکن فقیہ محترم کے اجتہاد نےا نہیں خواہ وہ جتنی بھی خداداد اجتہادی صلاحیت کے مالک ہوں یہاں جل دے دیا۔ کیونکہ وہ یہ بھول گئے کہ کہیں مجسٹریٹ چیکنگ ہوگئی تو منزل مقصود کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بطور سرکاری مہمان ان کو پہنچادیاجائے گا اور ان کی خوب آؤبھگت بھی کی جائے گی۔ (۴) مناظرہ بازی احقاق حق اور ابطال باطل کےلیے قرآن کریم نے جدل ومناظرہ کا اسلوب خود اپنایا ہے، ا ور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومعاندین کے ساتھ اسلوب اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔ لیکن قرآن کریم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جدل ومناظرہ کی رسی کو بہت ڈھیل دے کر اسے طول دینا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوئے کہاگیا: ” وَإِن جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ اللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ “(الحج :۶۸۔ ۶۹) ترجمہ: اگر یہ لوگ آپس سےا لجھنے لگیں توآپ کہہ دیں کہ تمہارے اعمال سے اللہ