کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 316
یعنی اس کا فتنہ میری امت کےلیے ابلیس سے بھی زیادہ مضرت رساں ہوگا۔
پہلی حدیث کی سند میں مأمون اور جوبیاری نامی دوشخص پائےجاتے ہیں انہی دونوں کے بارے میں محدثین کا خیال ہے کہ انہوں نے ہی اس حدیث کووضع کیاہے، دوسری حدیث کی سند میں أبو عبداللہ البورقی نامی شخص ہے، اس نے دوسری حدیث گھڑی ہے [1]تمام علماء کا اس حدیث کے موضوع (من گھڑت ) پونے پر اتفاق ہے۔ ا سکا اعتراف کرتے ہوئے بھی علامہ زاہد کوثری نے حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے، کیونکہ اس حدیث کے مختلف طرق اور متعدد سندیں ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ اس کی کوئی اصل اور حقیقت ضرورہے۔ [2]
موصوف کثرت طرق کا اعتبار کرتے ہوئے اس حقیقت کونظر انداز کرگئے حد درجہ ضعیف یا موضوع حدیث کو کثرت طرق یا کثرت سند سے تقویت حاصل ہونے کے بجائے حدیث کا ضعف شدید سے شدید تر ہوجاتا ہے، یا اس کا بطلان مزید واضح ہوجاتاہے۔ [3]
زاہد کوثری نے اسی پرا کتفاء نہیں کیا بلکہ امام شافعی کی تنقیص اور ان کے مرتبہ کو گھٹانے کے لیے آپ کے حسب ونسب، عربی دانی، فصاحت لسانی، ثقاہت اور فقہ کوبھی مطعون کرنے کی کوشش کی ہے۔ [4]
علامہ ابن یحییٰ معلمی رحمہ اللہ نے تنکیل [5] میں اور مولانا محمد رئیس ندوی حفظہ اللہ نے لمحات میں شیخ کوثری کے بیشتر اتہامات سخت نوٹس لیتے ہوئے کافی وشافی جواب دے دیا ہے۔
[1] تذکرۃ الموضوعات (۲/۴۸۔ ۴۹)
[2] تانیب الخطیب (ص۴۵)
[3] ملاحظہ ہو: نصب الرایۃ للزیلعی (۱/۲۵۹) مقدمۃ تحفۃ الأحوذی (ص۵۲)
[4] تأنیب الخطیب (ص ۲۵)
[5] التنکیل (۲/۳۹۷، ۴۰۴، ۴۱۳، ۴۱۶، ۴۲۰)