کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 312
ہوناچاہیے کہ تقلید کے رواج کے ساتھ ہی اس کا ظہور نہیں ہوگیاتھا بلکہ بہت بعد کے ادوار میں جب تقلید کی جڑیں خوب مضبوط ہوگئیں تھیں، لوگوں کے اندر اپنے اپنے مذہب سے اتنی وابستگی پیدا ہوگئی تھی کہ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے اماموں کے پیچھے نماز کی ادائیگی حرام یا مکروہ سمجھی جانے لگی تھی۔ ا ور آگے چل کراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہ ناصر فوج بن برقوق نے حرم مکی میں چاروں مذاب کے لیے الگ الگ محرابیں قائم کردیں اور ہر مذہب کےلیے ایک امام متعین کردیا۔ [1]
۲) شادی بیاہ میں تفریق
اختلاف کا سلسلہ مسجد ومحراب تک ہی محدود نہیں رہابلکہ شادی بیاہ تک پہنچ گیا، ا ور فتویٰ صادر کیاگیا کہ کوئی حنفی کسی شافعی عورت سے نکاح نہیں کرسکتا۔ ا ور اس کی وجہ یہ بیا ن کی گئی کہ ایمان کے مسألے میں ”ان شاء اللہ“ کہنے میں دونوں مذہب کےدرمیان اختلاف پایا جاتاہے، چنانچہ ایک حنفی کہتاہے :”میں حقیقۃ ً مومن ہوں “اور شافعی کہتاہے :”میں ان شاء اللہ مؤمن ہوں“[2]
گویا ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے شافعی کے ایمان میں شک واقع ہوگیا، لہذا اس کا ایمان مشکوک ماناجائےگا۔ ا سی بناء پر دونوں کے مابین شادی نہیں ہوسکتی۔ ایک حنفی مفتی جن کو ”مفتی الثقلین“ کا لقب حاصل ہے، ا ن کا فتوی ہے کہ ایک حنفی مردشافعی عورت سے اس بناء پر شادی کرسکتاہے کہ وہ اہل کتاب کے درجے میں ہے، [3] جس کامفہوم یہ نکلا کہ
[1] ملاحظہ ہو: البدر الطالع (۲/۲۶۔ ۲۷) وایضاح المحجة للعمرة ولاحجة مولفہ نواب صدیق حسن ( ص۱۶)وسواء الطریق مولفہ مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (ص۱۰)
[2] یہ عقیدہ کا ایک معروف ومشہور مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ایمان کے بارے میں ”ان شاء اللہ“ کہہ سکتاہے یا نہیں۔ احناف کے یہاں اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں ان شاء اللہ مؤمن ہوں تواس کا ایمان مشکوک ماناجائے گا، تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو:شرح العقیدہ الطحاویۃ (ص۴۹۴ومابعد تحقیق والترکی والأرنار ووط )
[3] البحر الرائق لابن نجیم، منقول از بدعۃ التعصب المذہبی (ص۲۰۵) نیز ملاحظہ ہو: حاشیہ ابن عابدین (۴/۱۵۸ طبعۃ جدیدۃ محققہ )