کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 311
میں ) اطمینان وغیرہ نہیں کیا تو قفال کے نزدیک شافعی کےلیے اس کی اقتداء جائزہے لیکن جمہور اس کےبرخلاف (عدم جوازکےقائل ہیں ) اور یہی صحیح ہے“۔ [1] اختلاف وافتراق کا دائرہ مرورزمانہ کے ساتھ اتنی وسعت اختیار کراگیا کہ مسجد ومحراب بھی زد میں آگئے۔ چنانچہ مساجد جن کو اللہ کا گھر ( بیوت اللہ ) کا نام دیاجاتاہے ان میں بھی تقسیم ہوگئی اور ہر مذہب کے ماننے والوں نے الگ الگ اپنی مساجد بنانی شروع کردیں۔ ا گر کسی مسجد پر دو یا دوسے زائد مختلف جماعتوں کا دعوی رہاتواسی ایک مسجد کے اندر دو یا دو سے زائد بلکہ چار الگ الگ ہر مذہب کے لیے محراب بنائی گئی۔ ایک وقت کی نماز الگ الگ ہر مذہب کےلیے محراب بنائی گئی۔ ایک وقت کی نماز الگ الگ اماموں کے پیچھے اپنے اپنے مذہب کے مطابق مختلف اوقات میں ادا کی جانے لگی۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے عظیم مرکز اورقبلہ اول ”مسجد حرام “میں مقلدین مذاہب کےلیے چار الگ الگ مصلے قائم کردیے گئے۔ کسی بھی مذہب کاماننے والا اپ نے ہم مذہب امام کے پیچھے ہی نماز ادا کرتا۔ یہ اس جگہ کا حال ہوگیاتھا جہاں جاکر تمام مسلمانوں کو اپنے تمام امتیازات اور فرق کو بھلادینے کاحکم دیا گیاتھاجہاں جاکر تمام مسلمانوں کو اپنے تمام امتیازات اور فرق کو بھلادینے کا حکم دیاگیا تھا۔ ا مت مسلمہ کےلیے اس سے بڑھ کر حرماں نصیبی کی بات اور کیاہوسکتی ہے کہ شہادتین کے بعد دین اسلام کا سب سے بڑا بنیادی رکن ”نماز“اللہ کے سب سے عظیم گھر خانہ کعبہ میں بھی تقلیدی مذاہب کی تفرقہ بازیوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ چنانچہ ماضی قریب تک ایک اللہ، ایک رسول، ایک قرآن پر ایمان رکھنے والی ایک امت، ایک وقت کی نماز، ایک اللہ کے گھر میں، ایک قبلہ کی طرف چار الگ الگ محرابوں میں، چار امام کے پیچھے ادا کرنے میں شاداں وفرحاں تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سعودی حکومت کا قیام عمل میں آیا، ا ور ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کی جدوجہد اور حکمت عملی سے ملت اسلامیہ کی پیشانی سے یہ بدنما داغ ختم ہوا۔ لیکن مذہبیت میں پختگی کے دعویدار حضرات آج بھی اس دور کو یاد کرکے سر دآہیں بھرتے ہوئے سعودی حکومت کو کوس رہے ہیں، ا ور اس زریں دور( ؟ ) کے واپسی کی تمنائیں کررہے ہیں۔ معلوم
[1] المجموع (۴/۱۸۴۔ ۱۸۵)