کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 31
تاثیرات کا شکار ہوکر مختلف فیہ مسائل بن گئے، ا ن کے افکار ونظریات، آراء واقوال کو نہ صرف تسلیم کرنا بلکہ کتاب وسنت کا فہم حاصل کرنے کے لیے انہیں مشعل راہ بنانا، عملی زندگی میں ان کے طور وطریق کواپنانا اور ان کے نقش قدم پر چلنا۔
معمولی صلاحیت رکھنے والا شخص بھی اتباع سلف یا اقتداء سلف کا یہی مفہوم جانتا اور سمجھتا ہے، ا ور یہی سلفی نسبت رکھنے والوں کادعوی بھی ہے ۔ لیکن شامی عالم ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوطی نے اتباع سلف یا اقتداء سلف کاکچھ اور ہی مفہوم بتلایاہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
”اتباع سلف کا مطلب یہ نہیں کہ سلف کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات یا مسائل میں یا ان کے اختیار کردہ جزوی مواقف میں اپنے کو محصور کرلیاجائے۔ ا س لیے کہ خود سلف نے ایسا نہیں کیاہے۔ بلکہ سلف کی اتباع نصوص کی تفسیر وتاویل میں جن اصول وضوابط کوفیصل کے طور پر انہوں نے تسلیم کیاہے، ا ور اساسیات وفروع میں اجتہادات واستنباطات کے جواصول وضوابط انہو ں نے متعین کیے ہیں ان کو اپنا کر ہوسکتی ہے “
یہاں ایک ضروری سوال از خود پیدا ہوتاہے کہ مشارالیہ اصول وضوابط اور قواعد کی حقیقت کیاہے؟ اور کب ان کی تشکیل ہوئی ؟ اس سوال کا جواب موصوف خود ہی بڑی وضاحت سے دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
“مذکورہ قواعد اصول فقہ کے قواعد ہیں جومکمل طریقے سے عربی زبان اور اس کے اسلوب ومزاج پر اعتماد کرتے ہیں، ا ور ان قواعد کا استنباط اور ان کی تشکیل امام محمد بن ادریس شافعی ( ۱۵۰-۲۰۴ھ) کے عہدمیں ہوئی “۔ [1]
یہ حقیقت ہے کہ امام شافعی علیہ الرحمۃ نے ہی سب سے پہلے اصول فقہ کے قواعد وضع کیے ہیں۔ اور امام موصوف کازمانہ ان پہلی تین صدیوں میں جن کو بعد کی تمام صدیوں پر افضلیت وبرتری ھاصل ہے اور جن کو لائق اقتداء سلف کے زمانے کی حیثیت سے جانا
[1] السلفیة مرحلة (ص۱۲) مطبوعہ دارلفکر دمشق ۱۴۰۸ھ۔