کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 309
دوسرا سوال یہ ہے کہ : ”کیاموجودہ وہابیوں یا غیر مقلدوں کےخلف نماز پڑھنی جائز ہے یانہیں ؟ اثبات ونفی کی وجہ تحریر فرمائیں۔ “ پہلے سوال کے جواب میں موصوف مفتی صاحب فرماتے ہیں : ”نماز توہوجاتی ہے مگر وہ ترک جماعت کی وجہ سے گنہگار ہوتاہے، امام کا غیر مقلد ہونا جماعت میں شریک نہ ہونے کےلیے عذر صحیح نہیں “۔ دوسرے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : ”غیر مقلدوں کے پیچھے حنفی کی نماز ہوجاتی ہے“۔ [1] لیکن مولانا رشید احمد گنگوہی جن کی زبان فیض ترجمان پرسوائے حق بات کے اور کوئی چیز جاری ہی نہیں ہوتی غیر مقلدین کی امامت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”ان کی امامت مکروہ تحریمہ ہے اور دانستہ ان کو امام بناناحرام ہے، اگرچہ نماز مقتدیوں کی بکراہت تحریمہ ادا ہوجائے، ا ور نماز بھی جب اداہوکہ کوئی مفسد نامز نہ ہوئے، ورنہ اس گروہ کواس سے بھی باک نہیں ہے۔ قے ہونے ا ورخون نکلنے سے یہ لوگ وضو نہیں کرتے، اور ان کو ناقص وضونہیں جانتے، بھلا اگر ایسے وضو سے امام ہوں گے توحنفیہ کی نماز کب ان کے پیچھے درست ہوسکتی ہے”؟ [2] غیرمقلدین کی امامت کو مکروہ تحریمہ قرار دینے پر موصوف نے جووجہ جوازپیش کیا ہے وہ ان کا تقیہ کرنا، حنفیہ کو مشرک گرداننا، تقلید شخصی کو شرک کہنا اور دروغ گوئی سے کام لینا ہے، ا س سلسلے میں مشہور زمانہ کتاب”جامع الشواہد“جواہلحدیثوں کےخالف لکھی گئی ہے کافی اعتماد کیاہے، چونکہ موصوف حق کے علاوہ کچھ لکھتے نہیں، اس لیےا ن کےخلاف زبان کھولنے کی ہمت وجرات نہیں، لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے : کیا آپ کی مذہبیت اسی
[1] کفایت المنتہیٰ (۱/۲۳۴) منقول از بھولے بسرے فتوے (ص۲۸۔ ۲۹) [2] تذکرۃ الرشید (۱/۱۷۸۔ ۱۷۹)