کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 302
کا فتوی کوئی حنبلی نافذ کرے گا۔ ا گربچہ دس سال کا ہوگا توحنابلہ کے یہاں عورت پرعدت لازم ہوجائے گی (اگر بچہ طلاق نہ دے) تو اس کا ولی مصلحت کی خاطر طلاق دے دےگا اور اس طلاق کی صحت کا فتوی کوئی مالکی دے گا۔ ا ور بچہ کی مباشرت سے عورت پر عدت کےعدم وجوب کا بھی فتویٰ دے گا۔ پھر پہلا شوہر اس عورت سے شادی کرے گا۔ ا ور اس شادی کی صحت کا کوئی شافعی فتوی دے گا۔ کیونکہ حاکم کےفیصلے سے تمام اختلافات ختم ہوجاتے ہیں جب کہ اس کے یہاں تمام شرائط کے ساتھ دعوی پیش کیا گیاہو۔ اس طرح عورت ( بغیر عدت کے ) پہلے شوہر کےلیے حلال ہوجائے گی لیکن شرط یہ ہے کہ فتوی پر کوئی اجرت نہ لی گئی ہو۔ [1]
قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں :کس حسن ترکیب کے ساتھ پہلےخاوند کی تڑپ اور بے چینی کاعلاج فراہم کردیاگیا کہ ان کوحلالہ کے بغیر عدت کےلیے تین ماہ کا انتطار بھی نہیں کرنا پڑا اور بیوی انتظار کی گھڑی برداشت کیے بغیر ہاتھ آگئی۔ ویسے اس ترکیب اور طریقہ کو وہی لوگ ”تلفیق“ کا نام دیتے ہیں اور متفقہ طور پر اسے حرام قرار دیتے یہیں۔ چونکہ یہاں حلالہ جیسے بابرکت عمل کو انجام دیناتھا اور ایک مسلمان بھائی کی مصیبت خودور کرنا مقصود تھااس کیے تلفیق کی حرمت کوبھی حلت میں تبدیل کردیاگیا۔
حیل کی صرف یہی ایک مثال نہیں ہے، کتب فقہ میں سینکڑوں مثالیں ملیں گی جن میں مبینہ طور پرحلال کو حرام، حرام کو حلال بنادیاگیا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بہت ساری مثالیں جمع کردی ہیں۔ ا ن میں حددرجہ عجیب وغریب نمونے ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ نکاح کوفسخ کرنا چاہتی ہے تواس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر کے لڑکے کو اپنے ساتھ زنا کاموقع دیدے۔ (نعوذباللہ) کیونکہ اس طعح سے وہ عورت لڑکے کی موطوءۃ ہوجائے گی جو باپ کےلیے حرام ہے۔ [2]
[1] ردالمحتار علی الدرالمختار(۲/۷۴۰۔ ۷۴۵ط۳ المطبعۃ الامیریۃ ) ملاحظہ ہو : بدعۃ التعصب المذہبی (ص۱۸۳)
[2] ملاحظہ ہو؛اعلام الموقعین (۳/۱۰۰۷ط الفاروق القاہرہ)