کتاب: سلفیت کا تعارف اوراس کےمتعلق بعض شبہات کا ازالہ - صفحہ 300
کرکے ان کی اصل شکل کو بدل دیاتھا“ [1] مذکورہ بالا سطور سے حیل کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت سےقارئین کرام کوکسی قدر جانکاری حاصل ہوگئی ہوگی۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوجاناچاہیے کہ یہ اسی تقلید کی دین ہے جس پر مولانا محمدا بوبکر غازی پوری اور ان کے ہم نواؤں کوفخر وناز ہے اور اسے مذہبیت کا نام دیتے ہیں۔ اورا ن امور کو تسلیم نہ کرنے والوں کومذہبیت کانام دیتے ہیں۔ ا ور ان امور کوتسلیم نہ کرنے والوں کو مذہبیت سےخارج کرکے انہیں ضلالت وگمراہی اور فتنہ فساد کا سبب بتلاتے ہیں اور گستاخ ائمہ کرام کا نام دیتے ہیں کیونکہ اس قسم کے مسائل کی نسبت سے وہ ائمہ کرام کو بری قرار دیتے ہیں۔ کسی طرح اس نوعیت کے گھٹیا اور بازاری اقوال کی نسبت ان ائمہ کرام کی جانب جائز اور درست نہیں سمجھتے۔ بفرض محال اگر ان کی نسبت ان ائمہ کرام کی جانب صحیح بھی ہو تو ان امور میں ان کی اتباع کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اخیر میں حیل کی بعض مثالیں بھی قارئین کرام کے گوش گزار کردینا مناسب سمجھتے ہیں۔ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کا حیلہ سابقہ سطور میں پیش کیاگیا۔ یہ نہیں تصور کرنا چاہیے کہ یہ مسائل صرف کتابوں کی زینت ہیں۔ نہیں بلکہ مذہبیت کو زندہ رکھنے کے لیے ان پر ہر زمانہ میں عمل کرنے اور کرانے والے لوگ بھی پائے جاتے رہے ہیں۔ چنانچہ اکبر بادشاہ کے شیخ الاسلام کا زکوٰۃ کی نسبت یہ عمل تھا کہ سال کےا خیر میں تمام مال اپنی بیوی کو ہبہ کردیتے اور وہ نیک بخت سال کے اندر پھر انہیں واپس کردیتی تاکہ اس حیلہ شرعی سے زکوۃ سے بچ جائیں۔ [2] آج بھی مذہبیت کے پختہ معاشرہ میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ا ور شاید اسی حیلہ سے متأثر ہوکر بعض اہل مدارس جوزکوۃ کےا موال کومدارس کی تعمیر میں جائز نہیں سمجھتے یہ حیلہ اختیار کرتے ہیں کہ کسی غریب نادار طالب علم کوچندہ کی رقم صدقہ کردیتے ہیں اس
[1] اعلام الموقعین (۳/۹۳۹ط مطابق الفاروق القاہرہ) [2] ردوکوثر شیخ اکرام، لاہور ص ۹۴۔ ۹۵